مکتوب 44
ایک استفار کے جواب میں جو وحدت کی نسبت کیا گیا تھا اور علوم شریعہ کے ساتھ اس کے مطابق کرنے کے بیان میں اور نیز پوچھا گیا تھا کہ اِذَا احب الله سُبحَانَهُ عَبدا الخ کے کیا معنی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں محمد صادق ولد حاجی محمد مومن کی طرف صادر فرمایا ہے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )
آپ نے پوچھا تھا کہ صوفیاء، وحدت وجود کے قائل ہیں اور علماء اس کو کفر وزندقہ جانتے ہیں اور دونوں گروہ فرقہ ناجیہ سے ہیں ، اس معاملہ کی حقیقت کیا ہے۔ اے محبت کے نشان والے اس بحث کی تحقیق فقیر نے اپنے مکتوب اور رسالوں میں مفصل لکھی ہے اور فریقین کے نزاع کو لفظ کی طرف راجع کیا ہے لیکن چونکہ آپ نے پوچھا ہے ، اس لیے سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔ ناچار چند کلمات لکھے جاتے ہیں۔
جاننا چاہئے کہ صوفیاء علیا میں سے جو لوگ وحدت وجود کے قائل ہیں اور اشیاء کو عین حق جانتے ہیں اور ہمہ اوست کا حکم کرتے ہیں ، ان کی یہ مراد نہیں کہ اشیا حق تعالیٰ کے ساتھ متحدر میں اور تنزیہ تنزل کر کے تشبیہ بن گئی ہے اور واجب ممکن ہو گیا ہے اور بیچون چون میں آ گیا ہے کہ یہ سب کفر و الحاد اور گمراہی و زندقہ ہے ۔ وہاں نہ اتحاد ہے نہ غیبت نہ تنزل نہ تشبیہ ۔
فَهُوَ سُبْحَانَهُ الْآنَ كَمَا كَانَ سُبْحَانَهُ مِنْ لا يَتَغَيَّرُ بِذَاتِهِ وَلَا فِي صِفَاتِهِ وَلَا فِي أَسْمَائِهِ بِحَدُوثِ الالوان اللہ تعالیٰ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ پاک ہے وہ مالک جو موجودات کے حدوث سے ذات وصفات و اسماء میں متغیر نہیں ہوتا۔ حق تعالیٰ اپنی اسی صرافت اطلاق پر ہے۔ وجوب کی بلندی سے امکان کی پستی کی طرف نہیں آیا بلکہ ہمہ اوست کے معنے یہ ہیں کہ اشیاء نہیں ہیں اور حق تعالیٰ موجود ہے۔ منصور نے جو انا الحق کہا، اس کی مراد یہ نہیں کہ میں حق ہوں اور حق کے ساتھ متحد ہوں کہ یہ کفر ہے اور اس کے قتل کا موجب ہے بلکہ اس کے قول کے یہ معنی ہیں کہ میں نہیں ہوں اور حق تعالیٰ موجود ہے۔
حاصل کلام یہ کہ صوفیاء اشیاء کو حق تعالیٰ کے ظہورات جانتے ہیں اور حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کے آئینے خیال کرتے ہیں۔ بغیر اس بات کے کہ ان میں کسی قسم کا تنزل اور تغیر و تبدل ہو جس طرح کسی شخص کا سایہ دراز ہو جائے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ سایہ اس شخص کے ساتھ متحد ہے اور عینیت کی نسبت رکھتا ہے یا وہ شخص تنزل کر کے کل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے بلکہ وہ شخص اپنی صرافت و اصالت پر ہے اور تنزل و تغیر کی آمیزش کے بغیر کل اس سے وجود میں آیا ہے۔ ہاں بعض اوقات ان لوگوں کی نظر میں جن کو اس شخص سے محبت ہوتی ہے، کمال محبت کے باعث یہ کا وجود مخفی ہو جاتا ہے اور شخص کے بغیر ان کو کچھ مشہور نہیں ہوتا۔ اس وقت اگر یہ کہہ دیں کہ ظل عین شخص ہے یعنی ظل معدوم ہے اور موجود وہی شخص ہے تو ہوسکتا ہے
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ اشیاء صوفیاء کے نزدیک حق تعالیٰ کے ظہورات ہیں نہ حق تعالیٰ کا مین پس اشیاء حق تعالیٰ سے ہوں گے۔ پس ان کی کلام ہمہ اوست کے معنے ہمہ از دست ہوں گے جو علماء کرام کے نزدیک مختار ہیں اور درحقیقت علماء کرام اور صوفیہ عظام کے درمیان کوئی نزاع ثابت نہ ہوگی اور دونوں قولوں کا مال ایک ہی ہوگا۔ البتہ اس قدر فرق ہے کہ صوفیاء اشیاء کو حق تعالٰی کے ظہورات کہتے ہیں اور علماء اس لفظ سے بھی کنارہ کرتے ہیں تا کہ حلول واتحاد کا وہم نہ پایا جائے۔
سوال : صوفیاء اشیاء کو باوجود ظہورات کے معدوم خارجی جانتے ہیں اور خارج میں حق تعالیٰ کے سوا کچھ موجود نہیں دیکھتے اور علماء اشیاء کو موجودات خارجیہ کہتے ہیں۔ پس معنی میں فریقین کا نزاع ثابت ہو گیا۔
جواب: صوفیاء، اگر چہ عالم کو معدوم خارجی جانتے ہیں لیکن خارج میں اس کا وجود وہی ثابت کرتے ہیں اور نمود و ظہور خارجی کہتے ہیں اور کثرت و ہیمہ خارجیہ سے انکار نہیں کرتے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ وجود وہی جو خارج میں نمایاں ہے۔ ان وجودات و ہیمہ کی قسم سے نہیں ہے۔ جو وہم کے اٹھ جانے سے اٹھ جاتے ہیں اور کچھ ثبات و استقرار نہیں رکھتے بلکہ یہ وہی وجود اور خیالی نمائش چونکہ حق تعالیٰ کی صنعت اور اس کی قدرت کاملہ کا نقش ہے، اس لیہی زوال وخلل سے محفوظ ہے اور اس جہان اور اس جہان کا معاملہ انہی وجودوں پر وابستہ ہے۔ سوفسطائی جو عالم کو وہم و خیالات جانتا ہے، اس کے نزدیک وہم و خیال کے اٹھ جانے سے اشیاء بھی اٹھ جاتی ہیں اور کہتا ہے کہ اشیاء کا وجود ہمارے اعتقاد کے تابع ہے۔ بذات خود پای ثروت و حقیقت نہیں رکھتیں۔ اگر ہم آسمان کو زمین اعتقاد کریں تو زمین ہے اور زمین ہمارے اعتقاد میں آسمان ۔ اگر ہم شیر میں کو تلخ جائیں تو تلخ ہے اور تلخ ہمارے اعتقاد میں شیریں ہے۔
غرض یہ بے وقوف۔ صانع مختار جل شانہ کی ایجاد کا انکار کرتے ہیں اور اشیاء کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کرتے ۔ ضلوا فاضلوا ( یہ لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور اور وں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔)
پس صوفیا ء اشیاء کے لیے خارج میں وجود وہمی جو ثبات و استقرار رکھتا ہے اور وہم کے اٹھے جانے سے اٹھ نہیں جاتا۔ ثابت کرتے ہیں اور اس جہان اور اس جہان کا معاملہ جو دائمی اور ابدی ہے۔ اسی وجود پر موقوف جانتے ہیں اور علماء اشیاء کو خارج میں موجود جانتے ہیں اور خارجی ابدی کے احکام کو اشیاء پر مترتب جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ وجود اشیاء کو حق تعالیٰ کے وجود کے مقابلہ میں ضعیف و نحیف تصور کرتے ہیں اور ممکن کے وجود کو حق تعالیٰ کے وجود کی نسبت فانی و نیست جانتے ہیں۔
پس فریقین کے نزدیک اشیاء کا وجود خارج میں ثابت ہو گیا جس پر اس جہان اور اس جہان کے احکام وابستہ ہیں اور وہم و خیال کے دور ہونے سے دور نہیں ہوسکتا۔ پس نزاع فیما بین رفع ہو گیا اور خلاف جاتا رہا۔ خلاصہ یہ کہ صوفیاء اس وجود کو وہی کہتے ہیں۔ اس لیے عروج کے وقت اشیاء کا وجود ان کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے اور حق تعالیٰ کے وجود کے سوا ان کی نظر میں کچھ نہیں رہتا اور علماء اس وجود پر وہم کا لفظ بولنے سے کنارہ کرتے ہیں اور وجود وہمی نہیں کہتے تا کہ کوئی کوتاہ نظر اس کے رفع ہونے کا حکم نہ کرے اور اس کے ابدی ثواب و عذاب سے انکار نہ کرے۔
سوال: صوفیا جو اشیاء کے لیے وجود و بھی ثابت کرتے ہیں ، ان کا مقصود یہ ہے کہ یہ وجود با وجو د ثبات و استقرار کے دراصل کچھ نہیں صرف وہم میں وجود رکھتا ہے اور نمود و ظہور کے سوا اس کو کچھ نصیب نہیں اور علماء اشیاء کو باوجود نفس الامری کے خارج میں موجود جانتے ہیں ، پس نزاع باقی رہا۔
جواب: وجود وہی اور نمو د خیالی جب وہم و خیال کے اٹھنے سے اٹھ نہیں سکتا تو نفس الامری ہے کیونکہ اگر ہم تمام وہموں کے وہم کا زائل ہو نا فرض کریں تو یہ وجود ثابت رہے گا اور ان کے زائل ہونے سے زائل نہ ہوگا۔ واقع اور نفس الامری کے یہی معنی ہیں ۔ اس قدر ہے کہ یہ نفس الامری جو وجود ممکن میں ثابت کی جاتی ہے۔ اس نفس امری کے مقابلہ میں جو واجب تعالی کے وجود میں ثابت ہے، لاشے کا حکم رکھتی ہے اور نزدیک ہے کہ اس کو موہومات اور متخیلات میں شمار کیا جائے جس طرح کی مشلک کے افراد جو ایک دوسرے کے ساتھ بڑا تفاوت رکھتے ہیں یا جس طرح ممکن کا وجود جو واجب تعالیٰ کے وجود کی نسبت لاشے کا حکم رکھتا ہے نزدیک ہے کہ اس کو عد مات میں شمار کیا جائے ۔ پس حقیقت میں کوئی نزاع نہ رہا۔
سوال : تمام اشیاء کا وجود جب نفس الامری ہے تو لازم آتا ہے کہ نفس امر میں موجودات متعدد ہوں اور نفس الامر میں ایک موجود نہ ہو اور یہ امر وحدت وجود کے منافی ہے جو صوفیا ء وجود یہ کے نزدیک مقرر ہے۔
جواب : دو تو ساری ہیں یا وجود بھی ساری ہے اور تو وہ جو بھی اس مری جب جہت و اعتبار مختلف ہیں تو اجتماع نقیضین کا وہم مرفوع ہے۔
یہ بحث اس مثال سے روشن ہوتی ہے مثلاً زید کی صورت جو آئینہ میں دکھا دیتی ہے نفس الا مرآ ئینہ میں کوئی صورت موجود نہیں ہے کیونکہ وہ صورت نہ آئینہ کیموٹائی میں ہے نہ آئینہ کے منہ میں بلکہ اس صورت کا وجود آئینہ میں وہم کے اعتبار سے ہے اور خیالی دکھاوٹ کے سوا آئینہ میں کچھ حاصل نہیں اور یہ وہمی وجود اور خیالی نمود بھی جو صورت کے لیے آئینہ میں پیدا ہوئی ہے نفس امری ہے۔ پس اگر کوئی کہہ دے کہ میں نے زید کی صورت آئینہ میں دیکھی ہے۔ عقل وعرف میں اس کو اس کلام میں سچا جانتے ہیں اور حق پر سمجھتے ہیں اور جب قسموں کی بنا عرف پر ہے۔ اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ واللہ میں نے زید کی صورت کو آئینہ میں دیکھا ہے تو حانث نہ ہوگا۔ پس اس صورت میں آئینہ میں زید کی اس صورت کا عدم حصول بھی نفس امری ہے لیکن پہلا نفس امر مطلق نفس امر ہے اور پچھلا انفس امروہم و خیال کے ذریعے ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ وہم و خیال کا اعتبار جو نفس امری کے منافی ہے، اس جگہ یہی اعتبار نفس امر کے حاصل ہونے کا باعث ہے۔ اِذْلَو لَاهُ لَمَا حَصَلَ ثَمَّه نَفْسُ الْامُرِ اگر وہ نہ ہوتا تو نفس الا مر حاصل نہ ہوتا۔
دوسری مثال نقطہ جوالہ ہے جس نے وہم وخیال کے اعتبار سے دائرہ کی صورت میں خارج میں ثبوت پیدا کیا ہے۔ یہاں بھی خارج میں دائرہ کا عدم حصول نفس امری ہے اور وہم وخیال کے اعتبار سے خارج میں اس دائرہ کا حصول بھی نفس امری ہے لیکن دائرہ کا عدم حصول مطلق نفس امری ہے اور اس دائرہ کا حصول و ہم و خیال کے ملاحظہ سے نفس امری ہے۔ پس اول مطلق ہے دوسرا مقید۔ پس مذکورہ بالا صورت میں وحدت وجود مطلقاً نفس امری ہے اور تعدد وجود با عتبار وہم و خیال کے نفس امری ہے۔ پس اطلاق و تقید کے ملاحظہ سے ان دونوں نفس امر کے درمیان تناقض نہ رہا اور اجتماع نقیضین ثابت نہ ہوا۔
سوال : جب تمام و ہمیوں کے وہم کا زوال فرض کیا جائے تو وجود وہمی اور نمود خیالی کس طرح ثابت ہو گا۔
جواب: یہ وجود صرف وہم کے اختراع سے حاصل نہیں ہوا جو وہم کے زوال سے زائل ہو جائے بلکہ حق تعالیٰ کی صنعت سے مرتبہ وہم میں حاصل ہوا ہے اور ثبات وقرار حاصل کیا ہے۔ اس لیے وہم کے زوال سے خلل پذیر نہیں ہوتا اور وجود و بھی اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس کو مرتبہ حس و ہ ہم میں خلق فرمایا ہے اور چونکہ اسی کی خلق ہے خواہ کسی مرتبہ میں ہو زوال وخلل سے محفوظ ہے اور چونکہ حق تعالیٰ نے اس کو خلق فرمایا ہے، اس لیے نفس امری ہو گیا ہے ۔ اگر چہ وہ مرتبہ کہ جس میں پیدا کیا ہو نفس امری نہیں ہوتا اور مجرد اعتبار ہوتا ہے لیکن مخلوق اس مرتبہ میں نفس امری ہے۔
اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کو مرتبہ حس و وہم میں پیدا کیا ہے یعنی اشیاء کو اس مرتبہ میں ایجاد فرمایا ہے کہ اس مرتبہ کے لیے حس و وہم کے سوا کوئی حصول و ثبوت نہیں ۔ جس طرح که شعبدہ باز غیر واقع چیزوں کو واقع ظاہر کرے اور ایک چیز کی دس چیزیں دکھائے ، ان دس چیزوں کا حصول و ثبوت و ہم وجس کے سوا نہیں اور نفس امر میں ایک چیز کے سوا موجود نہیں ۔ ان دس چیزوں کو جو اس نے ظاہر کی ہیں، اگر حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے ثبات واستقرار بخشیں اور سرعت زوال اور خلل سے محفوظ ہو جائیں تو نفس امری ہو جائیں گے۔
پس وہ دس چیزیں نفس امر میں میں بھی اور نہیں بھی لیکن دو اعتبار ہے۔ اگر مرتبہ حس و ودہم سے قطع نظر کی جائے تو نہیں ہیں اور حس و وہم کے ملاحظہ سے نہیں ۔
قصہ مشہور ہے کہ ہندوستان کے کسی شہر میں شعبدہ بازوں نے بادشاہ کے حضور میں شعبدہ بازی شروع کی اور طلسم و شعبدہ سے آموں کے درختوں کا باغ ظاہر کیا حتی کہ وہ درخت اسی اثناء میں بڑے بڑے درخت ہو گئے اور ان کو پھل لگ گیا اور اہل مجلس نے ان پھلوں کو کھایا بھی ۔ اس وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ شعبدہ بازوں کو قتل کر دیں کیونکہ اس نے سنا ہوا تھا کہ شعبدوں کے ظاہر ہونے کے بعد اگر شعبدہ بازوں کوقتل کر دیں تو وہ شعبدہ حق تعالی کی قدرت سے اپنے حال پر رہتا ہے۔ اتفاقاً جب ان شعبدہ بازوں کو قتل کر دیا گیا تو وہ آم کے درخت حق تعالیٰ کی قدرت سے اسی طرح موجودہ ہے۔
میں نے سنا ہے کہ وہ درخت اب تک بھی موجود ہیں اور لوگ ان کے میووں کو کھاتے ہیں ۔ وَمَا ذَلِكَ عَلَى الله بعزیز اللہ تعالیٰ پر یہ بات مشکل نہیں۔
پس صورت متنازع فیہ میں حق تعالیٰ نے کہ جس کے سوا خارج اور نفس الامر میں کوئی موجود نہیں۔ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے اسماء وصفات کے کمالات کو ممکنات کی صورتوں کے پردہ میں مرتبہ حس ، دہم میں ظاہر کیا اور ان کمالات کو وجود وہمی اور ثبوت خیالی کے ساتھ اشیاء کے مظہروں میں جلوہ گر کیا یعنی اشیاء کو ان کمالات کے مطابق مرتبہ حس و و ہم میں ایجاد فرمایا ہے اور انہوں نے نمود وہمی اور ثبوت خیالی حاصل کیا۔ پس اشیاء کا وجود نمود کے اعتبار سے خیالی ہے لیکن حق تعالیٰ نے اس نمود کو ثبات و استقرار کرامت فرمایا ہے اور اشیاء کی صنعت میں استحکام کو مد نظر رکھا ہے اور ابدی معاملہ انہی پر وابستہ کیا ہے۔ ناچار اشیاء کا وجود وہمی اور ثبوت خیالی بھی نفس الامر ہو گیا ہے اور خلل سے محفوظ ہے۔ پس کہہ سکتے ہیں کہ اشیاء خارج میں باعتبار نفس الامر کے وجود رکھتی بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتیں لیکن دو اعتبار سے جیسے کہ اوپر گزر چکا۔
اس فقیر کے والد بزرگوار اقدس سرہ جو علماء محققین میں سے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ قاضی جلال الدین آگری نے جو بڑے بزرگ عالموں میں سے تھے، مجھ سے پوچھا کہ نفس الامر وحدت ہے یا کثرت اگر وحدت ہے تو شریعت جس کی بنیاد مختلف اور جدا جدا احکام پر ہے، باطل ہو جاتی ہے
اور اگر نفس الامر کثرت ہے تو صوفیاء کا قول جو وحدت وجود کے قائل ہیں ، باطل ہوتا ہے۔ والد بزرگوار قدس سرہ نے جواب میں فرمایا کہ دونوں نفس امری ہیں اور مفصل طور پر بیان کر دیا۔ فقیر کو یاد نہیں رہا کہ اس وقت والد بزرگوار قدس سرہ نے کیا کچھ بیان فرمایا تھا۔ اس وقت جو کچھ فقیر کے دل میں ڈالا گیا ہے، لکھا گیا ہے وَالأمرُ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ حقیقت امر کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
پس صوفیاء جو وحدت وجود کے قائل ہیں، حق پر ہیں اور علماء بھی کثرت وجود کا حکم کرتے ہیں ۔ حق پر ہیں ۔ صوفیاء کے احوال کے مناسب وحدت ہے اور علماء کے حال کے مناسب کثرت ہے کیونکہ شرائع کی بنا کثرت پر ہے اور احکام کا جدا جدا ہونا کثرت پر موقوف ہے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت اور آخرت کا ثواب و عذاب اسی کثرت سے تعلق رکھتا ہے اور جب حق تعالى فَاحْبَتُ أَنْ أَعْرَف اور پہچانا جاؤں ) کے موافق کثرت کو چاہتا اور ظہور کو دوست رکھتا ہے تو اس مرتبہ کا باقی رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس مرتبہ کی ترتیب حق تعالیٰ کو محبوب اور پسندیدہ ہے۔ سلطان ذیشان کے لیے نوکروں چاکروں کا ہونا ضروری ہے اور اس کی عظمت و کبریا کے لیے ذلت اور احتیاط اور انکار درکار ہے۔ وحدت وجود کا معاملہ اگر چہ حقیقت کی طرح ہے اور کثرت کا معاملہ اس کے مقابلہ میں مجاز کی طرح اسی واسطے اس عالم کو عالم حقیقت کہتے ہیں اور اس عالم کو عالم مجاز لیکن چونکہ ظہورات حق تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ ہیں اور دائمی اور ابدی بقا اشیاء کو عطا فرمائی ہے اور قدرت کو حکمت کے لباس میں ظاہر کیا ہے اور اسباب کو اپنے فعل کا روپوش بنایا ہے، اس لیے وہ حقیقت گویا متروک ہے اور یہ مجاز متعارف ومشہور ہے۔ نقطہ جوالہ اگر چہ حقیقت کی طرح ہے اور وہ دائرہ جو اس نقطہ پیدا ہوا ہے۔ مجاز کی مانند ہے لیکن اس کی حقیقت متروک ہے اور جو متعارف ہے، وہ مجازی ہے۔ نیز آپ نے اس قول کے معنی پوچھے تھے کہ اِذا اَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا لَا يَضُرُّهُ ذَنْبَ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اسکو کوئی گناہ پر نہیں دیتا۔
جاننا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو کوئی گناہ اس سے صادر نہیں ہوتا کیونکہ اولیاء اللہ گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ ہیں ۔ اگر چہ ان سے گناہ کا صادر ہونا جائز ہے۔ برخلاف انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے جو گناہوں سے معصوم ہیں ۔ ان کے حق میں گناہ صاد ہونے کا جواز بھی مسلوب ہے اور جب اولیاء اللہ سے گناہ صادر نہ ہوں تو یقین ہے کہ گناہ کا ضرر بھی نہ ہوگا ۔ پس گناہ کے صادر ہونے کی صورت میں لا يضره ذنب” درست ہے ۔ جیسے کہ صاحبان علم پر پوشیدہ نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گناہ سے مراد وہ گناہ ہوں جو درجہ ولایت تک پہنچنے سے پہلے صادر ہوئے ہیں ۔ فَإِنَّ الْإِسْلامَ يَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ ( کیونکہ اسلام پہلی باتوں کو قطع کر دیتا ہے ) وَحَقِيْقَةُ الْأَمْرِ عِندَ اللَّهِ سُبْحَانَہ حقیقت حال کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَانَا (یا اللہ تو بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر ) وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَ عَلَى سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيمَاتُ ) سلام ہو آپ پر اور ان لوگوں پر جنہوں نے ہدایت اختیار کی اور حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا ۔