0

مکتوب 45: اس بیان میں کہ عالم سب کا سب حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کا مظہر ہے


مکتوب 45

اس بیان میں کہ عالم سب کا سب حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کا مظہر ہے۔ برخلاف ذات کے کہ ممکن اس دولت سے بے نصیب ہے اور اس کو اپنے حق میں قیام بذات خود حاصل نہیں اور سب کا سب عرض ہے۔ اس میں جو ہر ہونے کی بو بھی نہیں اور اس کے مناسب بیان میں حقائق آگاہ معارف دستگاه خواجہ حسام الدین کی طرف صادر فرمایا ہے:

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ (اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ ) میرے مخدوم و مکرم ۔

از هرچه میرود سخن دوست خوش تر است
ترجمه
تمام باتوں سے بہتر ہیں یار کی باتیں

عجیب و غریب معرفتیں بیان کی جاتی ہیں۔ غور سے سنیں اور اخص خواص کے مراقبہ کا طریق بتایا جاتا ہے۔ بڑی توجہ فرمائیں۔


جاننا چاہئے کہ عالم سب کا سب حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کا مظہر ہے ۔ اگر ممکن میں حیات ہے تو اسی واجب تعالیٰ کی حیات کا آئینہ ہے اور اگر علم ہے تو اس کے علم کا آئینہ ہے اور اگر قدرت ہے تو اسی کی قدرت کا آئینہ ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن اس کی ذات کا عالم میں نہ کوئی آئینہ ہے نہ کوئی مظہر ۔ بلکہ حق تعالیٰ کی ذات کو عالم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں اور کسی چیز میں شراکت نہیں۔ اگر چہ وہ مناسبت اسم میں ہو یا مشارکت صورت میں ہو۔ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِي عَنِ الْعَالَمِينَ (اللَّهُ تعالیٰ سب جہان سے غنی ہے ) بر خلاف اسماء وصفات کے کہ عالم کے ساتھ اسمی مناسب رکھتے ہیں اور صوری مشارکت ان کے درمیان ثابت ہے یعنی جس طرح واجب تعالٰی میں علم ہے۔ ممکن میں بھی اس علم کی صورت ثابت ہے اور جس طرح وہاں قدرت ہے یہاں بھی اسی قدرت کی صورت ہے برخلاف ذات کے کہ ممکن اس دولت سے بے نصیب ہے اور اس کو اپنے حق میں قیام بذات خود حاصل نہیں بلکہ ممکن چونکہ حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کی صورتوں پر مخلوق ہے۔ اس لیے سب کا سب عرض ہے اور اس میں جو ہر پت کی بو نہیں۔ اس کا قیام حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اور معقول والوں نے جو ممکن جو ہر و عرضی میں تقسیم کیا ہے۔ ظاہر ہے ظاہر بینی کے سبب ہے اور بعض ممکن کا بعض کے ساتھ قیام جو ثابت ہے وہ عرض کا عرض کے ساتھ قائم ہونے کی قسم سے ہے۔ نہ عرض کا جوہر کے ساتھ قائم ہونے کی قسم سے بلکہ در حقیقت وہ دونوں عرض حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قیام رکھتے ہیں۔

ان کے درمیان کوئی جو ہر یت ثابت نہیں ۔ تمام ممکنات کا قیوم حق تعالیٰ ہی ہے۔ .. پس ممکن کی حقیقت میں کوئی ذات نہیں جس کے ساتھ اس کی صفات قائم ہوں بلکہ ذات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جس کے ساتھ حق تعالیٰ کی صفات اور تمام ممکنات قائم ہیں اور وہ اشارہ جو ہر ایک اپنی ذات کی طرف لفظ انا سے کرتا ہے۔ وہ در حقیقت اسی ایک ذات کی طرف راجع ہے جس کے ساتھ سب کا قیام ہے۔ اشارہ کرنے والا جانے یا نہ جانے اگر چہ حق تعالی کی ذات کسی اشارہ کے ساتھ مشار الیہ نہیں ہے اور کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں۔ کوتاہ نظر ان پوشیدہ معارف کو توحید وجودی کے معارف کے ساتھ نہ ملائیں اور ایک دوسرے کا دست وگریبان نہ جانیں کیونکہ تو حمید وجودی والے ایک ذات کے سوا کچھ موجود نہیں جانتے اور حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کو بھی اعتبارات علمی خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حقائق ممکنات کو وجود کی بو بھی نہیں پہنچی ۔ الاعيانُ مَا شَمَّتْرَائِحَةَ الْوَجُودِ (اعیان نے وجود کی بو بھی نہیں سونگھی ) ان کا کلام ہے۔ یه فقیر حق تعالیٰ کی صفات کو بھی وجود زائد کے ساتھ موجود جانتا ہے۔ جیسے کہ علماء اہل حق نے فرمایا ہے اور ممکنات کے لیے بھی جو حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کے مظہر ہیں ۔ وجود ثابت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ممکنات کو اعراض ہی سے جانتا ہے جو خود بخو د قیام نہیں رکھتے اور جو ہر یت کو جو خود بخود قیام رکھتا ہے۔ ممکنات میں ثابت نہیں کرتا اور سب کا قیام حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ جانتا ہے۔


سوال : اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن کی ذات واجب تعالی کی عین ذات ہے اور ممکن واجب کے ساتھ متحد ہے اور یہ محال ہے کیونکہ اس سے قلب حقائق یعنی حقیقتوں کا تغیر لازم آتا ہے۔

جواب: ممکن کی ذات یعنی اس کی ماہیت و حقیقت انہی اغراض متعددہ مخصوصہ میں سے ہے جو حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کا مظہر ہیں۔ ان اعراض کو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کوئی عینیت نہیں اور کسی قسم کا اتحاد نہیں ہے تا کہ قلب حقائق لازم آئے ۔ صرف اس قدر تعلق ہے کہ ان اعراض کا قیام حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اور تمام اشیاء کا قیوم وہی حق تعالی ہے۔

سوال : جب ہر ایک کا اشارہ جو اپنی ذات کی طرف لفظ انا سے ہوتا ہے، حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے تو لازم آتا ہے کہ ممکن کی ذات یعنی اس کی ماہیت و حقیقت حق تعالیٰ کی عین ذات ہو کیونکہ ہر ایک کا اشارہ لفظ انا کے ساتھ اپنی ماہیت و حقیقت کی طرف ہے۔ اس سے قلب حقیقت لازم آتا ہے اور یہ بات بعینہ تو حید وجودی والوں کی ہے۔

جواب : ہاں ہر ایک کا اشارہ لفظ انا کے ساتھ اگر چہ اپنی حقیقت کی طرف ہے لیکن جب اس کی حقیقت اعراض مجتمع سے ہے۔ اس اشارہ کی قابلیت نہیں رکھتے کیونکہ اعراض اصلی اور مستقل طور پر حسی اشارہ کے قابل نہیں۔ جب اس کی حقیقت نے اس اشارہ کو قبول نہ کیا تو ضرور وہ اشارہ اس حقیقت کے مقوم (جس کے ساتھ اس کا قیام ہے ) کی طرف راجع ہوگا۔ پس ممکن کی ماہیت و ہی اعراض مجتمعہ ہے اور اس کا انا کا اشارہ اس کی حقیقت کی قابلیت کے نہ ہونے کے باعث اس کے مقوم کی طرف راجع ہے جوحق تعالیٰ کی ذات سے مراد ہے۔ پس حقیقت کا تغیر لازم نہ آیا اور ممکن واجب نہ ہوا اور یہ بات تو حید وجودی والوں کی بات سے جدا رہی۔ عجب معاملہ ہے کہ ممکن کا انا واجب تعالی کی طرف رجوع کرے اور ممکن اپنے حال میں ممکن ہی رہے اور سبحانی اور انا الحق نہ پکارے۔ ہاں اس قسم کی بات کر سکتا ہی نہیں کیونکہ صاحب تمیز ہے

سوال : واجب تعالی کی ذات سے مکن کا قیام واجب تعالی کی ذات کے ساتھ حوادث کے
قیام کو مستلزم ہے اور یہ متنع اور محال ہے۔


جواب: حوادث کا قیام اس صورت میں ممتنع ہے۔ جب کہ حق تعالیٰ کی ذات میں حوادث کا حلول سمجھا جائے جو محال ہے لیکن اس جگہ قیام کے معنی حلول نہیں بلکہ اس کے معنی ثبوت اور تقریر کے ہیں یعنی ممکن کا ثبوت اور تقر ر واجب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔


سوال : جب ممکن سب کا سب عرض ہے تو عرض کے لیے محل کی ضرورت ہے تا کہ اس کے ساتھ قائم ہو ۔ وہ چل کون ہے۔ واجب کی ذات نہیں ۔ اسی طرح ممتنع اس کا محل نہیں ہو سکتا۔

جواب: عرض وہ ہے جس کو بذات خود قیام نہ ہو بلکہ غیر کے ساتھ قائم ہو۔ چونکہ معقول والوں نے عرض کے قیام میں حلول کے معنی سمجھے ہیں۔ اس لیے عرض کے لیے محل ثابت کیا ہے اور محل کے بغیر اس کا ثابت رہنا محال سمجھا ہے لیکن جب قیام کے معنی اور لیے جائیں جیسے کہ اوپر گزر چکا تو پھر محل کی کچھ ضرورت نہیں ۔ ہمارے مشاہدہ میں آچکا ہے کہ تمام اشیاء کا قیام واجب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اور کوئی حلول محل درمیان نہیں۔ معقولی اس کا اعتبار کریں یا نہ کریں۔

ان کی تشکیک ہماری بداہت کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ہمارا یقین ان کے شک سے دور نہیں ہوتا۔ اس بحث کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں کہ ارباب طلسم اور اصحاب سیمیا ایسی ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جو اجسام غریبہ اور اعراض عجیبہ کی قسم سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں سب لوگ جانتے ہیں کہ ان اجسام کا اعراض کی طرح خود بخود قیام نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا قیام صاحب طلسم کی ذات کے ساتھ ہے اور ان کا کوئی محل ثابت نہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قیام میں حالیت و محلیت کی آمیزش نہیں بلکہ ان سب کا ثبوت و تقر ر صاحب طلسم کی ذات کے ساتھ ہے۔ بغیر اس کے کہ حلول کا وہم پایا جائے ۔

مذکورہ بالا صورت میں بھی یہی تصور ہے کیونکہ حق تعالی نے اشیاء کو مرتبہ حس و و ہم میں خلق فرمایا ہے اور ان کی صنعت میں اتقان و احکام کو مدنظر رکھا ہے اور دائمی رنج و راحت و ثواب و عذاب کا معاملہ انہی پر وابستہ کیا ہے۔ پس ان اشیاء کا خود بخود قیام نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ بغیر اس کے کہ حلول اور حال محل کا وہم و خیال پایا جائے ۔


دوسری مثال پہاڑ یا آسمان کی صورت جو آئینہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو ان صورتوں کو اجسام خیال کرے گا اور جو ہر سمجھ کو قائم بذات خود جانے لگا اور اگر بالفرض کوئی شخص ان صورتوں کو اعراض جانے اور قائم بغیر تصور کرے اور عرض ہونے کے باعث ان کے لئے محل تلاش کرے اور محل کے بغیر ان کا ثبوت محال جانے ۔ وہ شخص بھی بے وقوف ہے جولوگوں کی تقلید پر بداہت کا انکار کرتا ہے کیونکہ جو شخص تمیز رکھتا ہے، بداہت سے معلوم کر لیتا ہے کہ ان صورتوں کے لیے ہر گز محل ثابت نہیں ہیں بلکہ ان کو محلوں کی کچھ احتیاج نہیں ۔ اسی طرح ارباب کشف و شہود کے نزدیک تمام ممکنات ان صورتوں کی طرح میں اور تماثیل سے زیادہ کچھ نہیں ۔ خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ نے ان صورتوں اور تماثیل کو اپنی کامل صنعت سے اس طرح کی مضبوطی اور استحکام بخشا ہے کہ خلل اور زوال سے محفوظ ہیں اور آخرت کا دائمی معاملہ ان پر منحصر کیا ہے۔

جیسے کہ کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ منتظمین میں سے نظام جو علماء معتزلہ سے ہے ۔ رميـة مـن غيـر رام تیر مارنا بغیر تیر انداز کے ) کے موافق یعنی انکل بیچو سے عالم کو اعراض کا مجموعہ جانتا ہے اور جواہر سے خالی سمجھتا ہے ۔ ہاں إِنَّ الْكَذُوبَ قَدْ يَصدق جھوٹا آدمی بھی بچ بھی بول جاتا ہے۔ چونکہ کوتاہ نظری سے ان اعراض کا قیام واجب الوجود کی ذات کے ساتھ نہیں جانتا۔ اس لیے داناؤں کے طعن و تشنیع کا محل ہوا ہے کیونکہ عرض کو غیر کے قیام سے چارہ نہیں اور وہ جو ہر کے وجود کا قائل نہیں تا کہ قیام کو اس کی طرف منسوب کرے اور صوفیاء میں سے صاحب فتوحات مکیہ عالم کو اعراض مجمعہ عین واحد میں جانتقلہ ہے اور تین واحد سے مراد ذات احدیت رکھتا ہے لیکن دوزمانوں میں ان اعراض کے باقی نہ رہنے کا حکم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عالم ہر آن میں معدوم ہو جاتا ہے اور اس جیسا اور موجود ہوتا ہے۔ اس فقیر کے نزدیک یہ معاملہ شہودی ہے نہ وجودی ۔

جیسے کہ شرح رباعیات کے حاشیوں میں اس کی تحقیق کی گئی ہے۔ سالک احوال کے درمیان پیشتر اس کے کہ ماسوا اس کی نظر سے بالکل دور ہو جائے ۔ ایک آن میں ایساد یکھتا ہے کہ عالم معدوم ہو گیا ہے اور دوسری آن میں پاتا ہے کہ عالم موجود ہے اور تیسری آن میں پھر معدوم سجھتا ہے اور چوتھی آن میں موجود سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ فنائے مطلق کے ساتھ مشرف ہو جاتا ہے اور ہمیشہ ماسوا کو معدوم پاتا ہے۔ اس وقت اس کی شہود میں عالم ہمیشہ کے لیے معدوم ہے۔ اسی طرح بقاء کے حاصل ہونے اور عالم کی طرف رجوع کرنے کے درمیان عالم کبھی نظر میں آجاتا ہے اور کبھی پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت بھی تجدد امثال کی حالت کا وہم گزرتا ہے۔ اسی عارف کے لیے جب بقاء اور عالم کی طرف رجوع کرنے کا معاملہ انجام تک پہنچ جاتا ہے اور تکمیل وارشاد کے مقام میں قرار پکڑتا ہے تو پھر عالم اس کی نظر میں آتا ہے اور اس وقت عالم کو دائمی طور پر موجود پاتا ہے۔


پس یہ معاملہ سالک کے شہود کی طرف راجع ہے۔ نہ کہ عالم کے وجود کی طرف کیونکہ عالم کا وجود ہمیشہ ایک وضع پر ہے۔ اگر تذبذب ہے تو شہود میں ہے ۔ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهِمُ للصواب اللہ تعالیٰ بہتری کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔ ) اور وہ زمانوں میں اعراض کے باقی نہ رہنے کا حکم جو بعض متکلمین نے کہا ہے ۔ ممنوع اور مدخول فیہ ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں اور وہ دلیلیں جو امراض کے باقی نہ رہنے پر لائے ہیں، نا تمام ہیں ۔ یہ پوشیدہ معارف گویا وہاں کے اکثر یاروں کے لیے ایک سبق ہے جس جس دوست کو ان کے دیکھنے کا شوق ہو، مہر بانی فرما کر ان کی نقل کر کے بھیج دیں۔ چونکہ فقیر پرستی غالب تھی ، اس واسطے ہر ایک یار کی طرف الگ الگ مکتوب نہیں لکھا گیا۔ صرف اسی پر کفایت کی گئی ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ لَدَيْكُمْ.

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا