0

مکتوب 46: کلمہ طیبہ کے فضائل میں جو طریقت و حقیقت و شریعت پر مشتمل ہے


مکتوب 46

کلمہ طیبہ کے فضائل میں جو طریقت و حقیقت و شریعت پر مشتمل ہے اور اس بیان میں کہ کمالات نبوت کے مقابلہ میں کمالات ولایت کی کچھ مقدار نہیں اور اس بیان میں کہ صاحب ولایت کو شریعت کے بغیر چارہ نہیں۔ ظاہر ہمیشہ شریعت کے ساتھ مکلف ہے اور باطن اس معاملہ کا گرفتار ہے اور اس کے مناسب بیان میں مولانا حمیدالدین بنگالی کی طرف صادر فرمایا ہے۔

لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ يكلمه طیبہ طریقت و حقیقت و شریعت کا جامع ہے۔ جب تک سالک نفی کے مقام میں ہے، طریقت میں ہے اور جب نبی سے پورے طور پر فارغ ہو جاتا ہے اور تمام ماسوا اس کی نظر سے مشتقی ہو جاتا ہے تو طریقت کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے اور مقام فتا میں پہنچ جاتا ہے۔ جب نفی کے بعد مقام اثبات میں آتا ہے اور سلوک سے جذ بہ کی طرف رغبت کرتا ہے تو مرتبہ حقیقت کے ساتھ تحقیق اور بقاء کے ساتھ موصوف ہو جاتا ہے ۔ اس نفی واثبات اور اس طریقت و حقیقت اور اس فنا و بقاء اور اس سلوک وجذ بہ سے اس پر ولایت کا اسم صادق آتا ہے اور نفس امارہ پین کو چھوڑ کر مطمئنہ ہو جاتا ہے اور پاک وصاف بن جاتا ہے۔ پس ولایت کے کمالات اس کلمہ طیبہ کی جز واؤل کے ساتھ جوفی واثبات ہے ، وابستہ ہیں ۔ باقی رہا اس کلمہ مقدسہ کا دوسرا جز و جو حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔ یہ دوسرا جز و شریعت کا کامل اور تمام کرنے والا ہے جو کچھ ابتداء اور وسط میں شریعت سے حاصل ہوا تھا۔ وہ شریعت کی صورت تھی اور اس کا اسم و رسم تھا۔ شریعت کی اصل حقیقت اس مقام میں حاصل ہوتی ہے جو مرتبہ ولایت کے حاصل ہونے کے بعد ہوتا ہے اور کمالات نبوت جو کامل تابعداروں کو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت اور تبعیت کے طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس مقام میں حاصل ہوتے ہیں۔ طریقت و حقیقت جس سے ولایت حاصل ہوتی ہے۔ شریعت کی حقیقت اور کمالات نبوت کے حاصل ہونے کے لیے کو یا شرائط ہیں۔ ولایت کو طہارت یعنی وضو کی طرح سمجھنا چاہئے اور شریعت کو نماز کی طرح۔ طریقت میں حقیقی نجاستیں دور ہوتی ہیں اور حقیقت میں حکمی نجاستیں رفع ہوتی ہیں تا کہ کامل طہارت کے بعد احکام شرعیہ کے بجالانے کے لائق ہو جائیں اور اس کے نماز ادا کرنے کی قابلیت حاصل ہو جائے جو مراتب قرب کی نہایت اور دین کا ستون اور مومن کی معراج ہے۔


مجھے اس کلمہ کا دوسرا جز و دریائے نا پید کنار کی طرح معلوم ہوا۔ جس کے مقابلہ میں پہلا جزو قطرہ کی طرف دکھائی دیتا تھا۔ ہاں کمالات نبوت کے مقابلہ میں کمالات ولایت کی کچھ مقدار نہیں۔ آفتاب کے مقابلہ میں ذرہ کی کیا مقدار ہے۔ سبحان اللہ ۔ بعض لوگ سج بینی سے ولایت کو نبوت سے افضل جانتے ہیں اور شریعت کو جولب لباب ہے، پوست سمجھتے ہیں۔ بچارے کیا کریں۔ ان کی نظر شریعت کی صورت تک ہی محدود ہے اور مغز سے پوست کے سوا ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔ نبوت کو خلق کی طرف توجہ ہونے کے باعث قاصر جانتے ہیں اور اس توجہ کو عوام کی توجہ کی طرح ناقص سمجھ کر ولایت کو جو حق تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتی ہے، اس توجہ پر ترجیح دیتے ہیں اور ولایت کو نبوت سے افضل جانتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے ہیں کہ کمالات نبوت میں بھی عروج کے وقت حق تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے جس طرح کہ مرتبہ ولایت میں بلکہ مرتبہ ولایت میں ان عروجی کمالات کی صورت ہے جو مقام ثبوت میں حاصل ہے ۔ چنانچہ اس کا ذکر آگے کیا جائے گا۔ نبوت میں نزول کے وقت ولایت کی طرح خلق کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ البتہ اس قدر فرق ہے کہ ولایت میں بظا ہر خلق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور باطن میں حق کی طرف اور نبوت کے نزول میں ظاہر و باطن خلق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کلی طور پر ان کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرتے ہیں۔ یہ نزول ولایت کے نزول سے اتم و اکمل ہے۔ جیسے کہ کتابوں اور رسالوں میں اس کی تحقیق ہو چکی ہے۔

خلق کی طرف ان کی یہ توجہ عوام کی توجہ کی طرح نہیں ہے۔ جیسے کہ انہوں نے گمان کیا ہے بلکہ عوام کی توجہ خلق کی طرف ان کی اس گرفتاری کے باعث ہوتی ہے جو ماسوا کے ساتھ رکھتے ہیں اور اخص خواص کی توجہ خلق کی طرف ماسوا کی گرفتاری کے باعث نہیں ہے کیونکہ یہ بزرگوار ما سوا کی گرفتاری کو پہلے ہی قدم میں چھوڑ جاتے ہیں اور اس کی جگہ خلق کے خالق کی گرفتاری اختیار کر لیتے ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توجہ بہ خلق ہدایت و ارشاد کے لئے ہے تا کہ خلق کی خالق کی طرف رہنمائی کریں اور مولیٰ کی رضا جوئی کی طرف ان کی دلالت کریں اور شک نہیں کہ اس قسم کی توجہ خلق جس کا مقصود خلق کو ماسوا کی غلامی سے آزاد کرنا ہو ۔ اس توجہ بحق سے کئی درجے فضیلت والی ہے جو اپنے نفس کے لیے ہے۔ مثلا ایک شخص ذکر الہی میں مشغول ہے۔

اسی اثناء میں ایک نابینا آ گیا۔ جس کے آگے کنواں ہے کہ اگر ایک قدم اور اٹھائے تو کنویں میں جا پڑے تو اس صورت میں ذکر کرنا بہتر ہے یا نابینا کو کنویں سے بچانا ۔ شک نہیں کہ اس صورت میں نابینا کو کنویں سے بچانا ذکر کرنے سے بہتر ہے کیونکہ حق تعالیٰ اس سے اور اس کے ذکر سے غنی ہے اور نا بینا ایک محتاج بندہ ہے جس کے ضرر کا دفع کرنا ضروری ہے۔ خاص کر جبکہ اس کو خلاص کرنے پر مامور ہو ۔ اس وقت اس کی یہ تخلیص بھی ذکر ہے کیونکہ امر کی بجا آوری ہے۔ ذکر میں ایک ہی حق کا ادا کرنا ہے جو مولا کا حق ہے اور تخلیص میں جو امر کے ساتھ واقع ہون، دوحق ادا ہوتے ہیں۔ بندہ کا حق بھی اور مولیٰ کا حق بھی بلکہ نزدیک ہے کہ اس وقت ذکر کرنا گناہ میں داخل ہو کیونکہ تمام وقت ذکر کرنا نا پسندیدہ نہیں ۔ بعض اوقات ذکر نہ کرنا بھی مستحسن اور پسندیدہ ہے۔

ایام منہی عنہا اور اوقات مکروہ میں روزہ نہ رکھنا اور نماز کا ادا نہ کرنا۔ روزہ رکھنے اور نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔ جانا چاہئے کہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ غفلت دور ہو جائے خواہ کسی طرح ہو۔ نہ یہ کہ نفلی اثبات یا اسم ذات کے تکرار پر ہی منحصر ہے۔ جیسے کے گمان کیا جاتا ہے ۔ پس اوامر کا بجالا نا اور نواہی سے ہٹ جانا ذکر ہی میں داخل ہے۔ حدود شرعی کو مد نظر رکھ کر خرید و فروخت کرنا بھی ذکر ہے ۔ اسی طرح اس رعایت کے ہوتے ہوئے نکاح و طلاق کا بھی ذکر ہے ۔ رعایت شرعی کے ساتھ ان امور میں مشغول ہونے کے وقت آمرونا ہی یعنی حق تعالیٰ ان امور کے کرنے والے کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ پھر غفلت کی کہاں گنجائش ہوتی ہے لیکن وہ ذکر جو مذکور کی اسم ؛ صفت کے ساتھ واقع ہو، وہ سریع التاثیر ہوتا ہے۔ اور مذکور کی زیادہ محبت بخشنے والا اور مذکور تک جلدی پہنچانے والا ہوتا ہے۔ برخلاف اس ذکر کے جو اوامر کے بنجا لانے اور نواہی سے بٹ جانے پر واقع ہو۔ جو ان صفات سے بے نصیب ہے۔ اگر چہ یہ صفات بعض افراد میں جن کا ذکر اوامر کے بجالانے اور شرعی منہیات سے ہٹ جانے پر ہے، شاذ و نادر طور پر پائے جاتے ہیں ۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت مولا زین الدین تا ئبادی قدس سره علم کی راہ سے خدا تک پہنچے ہیں اور نیز وہ ذکر جو اسم وصفت سے واقع ہو اس ذکر کا وسیلہ ہے جو شرعی حدود کو مد نظر رکھنے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ تمام امور میں شرعی احکام کا مد نظر رکھنا شارع علیہ الصلوۃ والسلام کی کامل محبت کے بغیر میسر نہیں ہوتا اور یہ کامل محبت حق تعالیٰ کے اسم و صفت کے ذکر پر موقوف ہے۔ پس پہلے ذکر چاہئے تا کہ اس ذکر کی دولت سے مشرف ہوں لیکن عنات کا معاملہ جدا ہے۔ وہاں نہ کوئی شرط ہے نہ کوئی وسیلہ۔ اللہ جتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے برگزیدہ کر لیتا ہے۔ اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان تینوں معاملوں یعنی طریقت ، حقیقت و شریعت کے آگے ایک اور معاملہ ہے جس کے آگے ان معاملوں کا کچھ اعتبار و شمار نہیں۔ جو کچھ مرتبہ حقیقت میں حاصل ہوا تھا اور اثبات سے تعلق رکھتا تھا، وہ اس معاملہ کی صورت تھی اور یہ معاملہ اس صورت کی حقیقت ہے جس طرح کہ شریعت کی صورت جو ابتداء میں عوام کے مرتبہ میں حاصل ہوئی تھی اور حقیقت و طریقت کے حاصل ہونے کے بعد اس صورت کی حقیق حاصل ہوتی ہے تو پھر خیال کرنا چاہئے کہ وہ معاملہ کہ جس کی صورت حقیقت ہو اور اس کا ہو، گفتگو میں کس طرح آ سکتا ہے اور اگر بالفرض بیان کیا جائے تو کوئی اس کی حقیقت کو کیا معلوم کرے گا۔ یہ معاملہ اولوالعزم پیغمبروں کی وراثت ہے جو اقل قلیل کے نصیب ہوتا ہے۔ جب اس معاملہ میں اصول قلیل ہوں تو فروع ضرور ہی اقل و کمتر ہوں گے ۔

سوال : ان معالف سے لازم آتا ہے کہ عارف بعض مراتب میں شریعت سے قدم باہر نکال لیتا ہے اور شریعت کے سوا عروج کھرتا ہے۔

جواب: شریعت ظاہری اعمال کا نا ہے اور یہ معاملہ اس جہان میں باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ ظام ہمیشہ شریعت کے ساتھ مکلف ہے اور باطن اس معاملہ میں گرفتار ہے۔ چونکہ یہ جہان دار عمل ہے۔ باطن کو ظاہری اعمال سے بڑی مددملتی ہے اور باطن کی ترقیات شریعت کے بجالانے پر جو ظاہر سے تعلق رکھتی ہے منحصر اور موقوف ہیں۔ پس اس جہان میں ہر وقت ظاہر و باطن کے لیے تربیت کا رونا ضروری ہے۔ ظاہر کا کام شریعت پر عمل کرنا ہے اور اس کے نتائج و ثمرات باطن کے ہاں شریعت تمام کمالات کی ماں اور تمام مقامات کا اصل ہے۔ شریعت کے نتائج و ثمرات صرف اسی دنیاوی جہان پر موقوف نہیں ہیں بلکہ آخرت کے کمالات اور دائی ناز و نعمت بھی شریعت کے نتائج و ثمرات میں سے ہیں ۔ گویا شریعت شجرہ طیبہ ہے جس کے پھلوں اور میووں سے لوگ اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بہت سے فائدے اس سے حاصل کر رہے ہیں۔


سوال: اس بیان سے لازم آتا ہے کہ کمالات نبوت میں بھی باطن حق کی طرف اور ظا بر خلق کی طرف ہوتا ہے اور آپ نے اپنے رسالوں اور مکتوبات میں لکھا ہے اور اوپر بھی گزر چکا ہے کہ مقام نبوت میں جو دعوت کا مقام ہے، کلی طور پر خلق کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ اس میں تطبیق کی وجہ کیا ہے۔

جواب: وہ معاملہ عروج سے تعلق رکھتا ہے اور مقام دعوت ہبوط ونزول سے وابستہ ہے۔ پس عروج کے وقت باطن حق تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے اور ظا ہر خلق کی طرف تا کہ شریعت نجرا کے موافق ان کے حقوق ادا ہوں اور ہبوط و نزول کے وقت کلی طور پر خلق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تا کہ خلق کو پورے طور پر خالق کی طرف دعوت کریں ۔ اس میں کوئی منافات نہیں۔ اس مقام کی تحقیق یہ ہے کہ توجه خلق میں توجہ حق ہے ۔ فَإِيْنَمَا تُوَلُّوْا فَتَمَّ وَجُهُ الله ( جس طرف منہ پھیر واسی طرف اللہ کی ذات ہے ) اس کے یہ معنی نہیں کہ ممکن عین واجب ہے یا واجب کا آئینہ ہے۔ ممکن حقیر کی کیا طاقت ہے کہ واجب کا عین یا اس کا آئینہ بننے کے قابل ہو سکے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ واجب تعالی ممکن کا آئینہ ہے اور اشیاء واجب کے آئینہ میں اس طرح معلوم ہوتی ہے جس طرح اشیاء کی صورتیں صورت کے آئینہ میں جس طرح ان صورتوں کے لیے صورت کے آئینہ میں حلول وسریان نہیں ۔ اسی طرح ان اشیاء کا واجب کے آئینہ میں کوئی حلول و سریان نہیں۔ کس طرح حلول متصور ہو سکے جب کہ آئینہ کے مرتبہ میں صورتوں کا وجود ہی نہیں ۔ صورتوں کا وجود صرف مرتبہ وہم وخیال میں ہے۔


نہیں جس جگہ آئینہ ہے وہاں صورتیں نہیں اور جہاں صورت ہے وہاں آئینہ کو ہزار عار ہے کیونکہ خیالی نمود کے سوا صورتوں کا کچھ ثبوت نہیں اور وہی صورت کے تحقق کے سوا ان کا کوئی وجود نہیں ۔ اگر مکان رکھتے ہیں مرتبہ وہم میں رکھتے ہیں اور اگر زمان رکھتے ہیں مرتب تخیل میں رکھتے ہیں لیکن چونکہ اشیاء کی نمود اور بستی حق تعالیٰ کی صنعت سے ہے، اس لیے خلل اور سراعت زوال سے محفوظ ہے اور معاملہ ابدی اور آخرت کا ثواب و عذاب ان پر موقوف ہے۔ جاننا چاہئے کہ صورت کے آئینہ میں اول صورتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ پھر آئینہ کے شہود کے لیے دوسری انتفات درکار ہے اور حق تعالیٰ کے آئینہ میں اول وہی آئینہ تفوظ ہے۔ پھر اشیاء کے شہود کے لیے دوسری التفات درکار ہیں اور نیز صورت کے آئینہ میں صورتیں بھی آئینہ کے احکام و آثار کے آئینے ہیں یعنی اگر آئینہ لمبا ہے تو صورتیں بھی بھی ظاہر ہوتی ہیں اور آئینہ کی لمبائی کا مظہر ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر آئینہ چھوٹا ہے تو چھوٹا پن صورتوں کے آئینوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ برخلاف واجب تعالی کی ذات کے آئینہ کے کہ اشیاء اس کے احکام و آثار کے آئینے نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس مرتبہ علیہ میں کوئی حکم واثر نہیں بلکہ تمام نسبتیں وہاں مسلوب ہیں ۔ پھر اشیاء کس چیز کا آئینہ ہوں اور کیا چیز دکھائیں۔


ہاں مراتب تنزل میں جو اسماء وصفات کے ثبوت کا مقام ہے، اگر اشیا ، واجب کے احکام کی صورتوں کے آئینے ہوں تو ہو سکتا ہے۔ سمع وبصر و علم و قدرت جو اشیاء کے آئینوں میں ظاہر ہیں۔ مرتبہ وجوب کے سمع بصر و علم قدرت کی صورتیں ہیں جو ان اشیاء کا آئینہ ہے۔ یہ سب آئینہ کے احکام ہیں جو اشیاء ظاہری کے آئینوں میں ظاہر ہوئے ہیں اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ واجب کے آئینہ میں اول وہی آئینہ ملحوظ ہے۔ پھر آئینہ میں ان اشیاء کے شہود کے لیے جو صورتوں کی طرح ہیں، دوسری التفات درکار ہے۔

یہ رجوع کے ابتداء حال میں ہے جب کہ وہ صورتیں نظر میں آتی ہیں جو پہلے پورے طور پر نظر سے دور ہو چکی تھیں ۔ جب رجوع کا معاملہ تمام ہو جاتا ہے اور اشیاء میں دور دراز سیر واقع ہوتا ہے اور دائرہ امکان میں استقرار حاصل ہو جاتا ہے تو اس وقت شہود غیب ہے بدل جاتا ہے اور ایمان شہودی ایمان غیبی ہو جاتا ہے۔ حتی کہ جب دعوت کا معاملہ تمام ہو جاتا ہے اور السر جیل یعنی کوچ کا آوازہ اس کو سنا دیتے ہیں ، اس وقت یہ غیب بھی دور ہو جاتا ہے اور سوائے شہود کے کچھ نہیں رہتا لیکن یہ شہود اس شہود سے جور جوع سے اول حاصل ہوتا ہے، اتم و اکمل ہوتا ہے کیونکہ وہ شہود جو آخرت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس شہود کی نسبت جود نیا سے تعلق رکھتا ہے، زیادہ کامل ہے۔

هَنِيَاءُ لَا رُبَابِ النَّعِيمِ نَعِيْمُهَا
وَلِلْعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرْعُ

ترجمہ: مبارک معموں کو اپنی نعمت
مبارک عاشقوں کو درد و کلفت

جاننا چاہئے کہ تحقیق سابق سے واضح ہوا ہے کہ شے کی صورت جو آئینہ میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ثبوت صرف خیال ہی میں ہے۔ آئینہ اس صورت کے حاصل ہونے سے اپنے محض وصرف تجرد پر ہے۔ ہاں کہہ سکتے ہیں کہ آئینہ اس صورت کے قریب ہے یا اس کو محیط ہے یا اس کے ساتھ ہے۔ یہ قرب واحاطہ معیت اس قسم کا نہیں جیسے جسم کو جسم کے ساتھ یا جو ہر کو عرض کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ یہ قرب واحاطہ اس قسم کا ہے جس کے تصور و ادراک سے عقل و فہم عاجز و کوتاہ ہیں۔ پس اس صورت میں قرب ومعیت واحاطہ ثابت ہے لیکن کیفیت معلوم نہیں ۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الا على اعلیٰ مثال اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔

اسی طرح وہ قرب واحاطہ ومعیت جو حق تعالیٰ کے عالم کے ساتھ ہے۔ وہ مَعْلُومُ الْانيَّة جبکہ مجهول الكیفیت ہے ہم ایمان لاتے ہیں کہ حق تعالیٰ عالم کے قریب اور محیط اور اس کے ساتھ ہے لیکن اس کے قرب واحاطہ ومعیت کی حقیقت نہیں جانتے کہ کیا ہے کیونکہ یہ صفات اشیا کی صفات سے جدا ہیں اور امکان وحدوث کے نشانات سے علیحدہ ہیں ۔ صرف ان کی تشبیہ و تمثیل عالم مجاز میں جو حقیقت کا پل ہے، ظاہر کی گئی ہے اور آئینہ وصورت کے طور پر ان کا اظہار کیا گیا ہے تا کہ باریک بین اور دانا لوگ حق تعالیٰ کی عنایت سے مجاز سے حقیقت کا پتہ لگائیں اور صورت سے معنی کی طرف آئیں ۔ وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت
اختیار کی۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا