0

مکتوب 50: اس بیان میں کہ شریعت کی ایک صورت ہے


مکتوب 50

اس بیان میں کہ شریعت کی ایک صورت ہے۔ ایک حقیقت اور اس بیان میں کہ ابتداء سے انتہاء تک شریعت کا ہونا ضروری ہے اور قلب کی تمکین اور نفس کے اطمینان اور اجزاء قالب کے اعتدال میں جو مرتبہ نبوت میں ہے اور اس کے مناسب بیان میں مرزا شمس الدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )

شریعت کی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت صورت شریعت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم اور ان تمام چیزوں پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں، ایمان لانے کے بعد نفس امارہ کی منازعت اور سرکشی اور طغیان کے باوجود جو اس کی طبیعت میں رکھا گیا ہے، احکام شرعیہ کا بجالانا ہے۔ اس مقام میں اگر ایمان ہے تو ایمان کی صورت ہے اور اگر نماز ، روزہ ہے تو نماز روزہ کی صورت ہے۔ تمام احکام شریعہ اسی قیاس پر ہیں کیونکہ نفس جو وجود انسان میں سے عمدہ اور انا کے قول سے ہر ایک کا مشار الیہ ہے، اپنے فکر و انکار پر اڑا ہوا ہے۔ ایمان اور اعمال صالحہ کی حقیقت کس طرح متصور ہو سکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ صرف صورت کو قبول فرما کر جنت کی خوشخبری دی ہے جو اس کی رضا کا مقام ہے اور یہ اس کا احسان ہے کہ نفس ایمان میں تصدیق قلبی پر کفایت فرمائی ہے اور نفس کے مان لینے کی تکلیف نہیں فرمائی۔


ہاں جنت کی بھی صورت اور حقیقت ہے۔ اصحاب صورت جنت کی صورت سے محظوظ ہوں گے اور صاحبان حقیقت جنت کی حقیقت ہے۔ اصحاب صورت اور ارباب حقیقت جنت کے ایک
ہی میوہ کو کھا ئیں گے مگر صورت والوں کو اور لذت آئے گی اور حقیقت والوں کو اور ۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ایک جنت میں ہوں گے اور ایک ہی میوہ کو کھا ئیں گی لیکن ہر ایک کا مزہ ولذت جدا جدا ہو گا۔

اگر علیحدہ نہ ہو تو پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا تمام بنی آدم پر امہات المومنین کی فضیلت لازم آتی ہے۔ اور نیز لازم آتا ہے کہ جو شخص دوسرے شخص سے افضل ہو ، اس کی عورت بھی اس دوسرے شخص سے افضل ہو کیونکہ عورت مرد کے ساتھ ملی جلی ہے۔ شریعت کی یہ صورت بشرط استقامت آخرت کی فلاح و نجات اور جنت میں داخل ہونے کا موجب ہے۔ جب شریعت کی صورت درست بوی حاصل ہوگئی ۔ الله وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا الله تعالی ایمان والوں
کا دوست ہے۔

اس وقت سمائک اللہ تعالی کی عنایت سے اس بات کے لائق ہو جاتا ہے کہ طریقت میں قدم رکھے اور ولایت خاصہ ن طرف توجہ کرے اور نس کو امارہ بہن سے اطمینان کے درجے تک لے جائے لیکن یادر ہے کہ اس ولایت تک پہنچنے کی منزلوں کا طے کرنا بھی شریعت کے اعمال پر وابستہ ہے۔ ذکر الہی جل شانہ جو اس راہ میں سب سے بہتر وعدہ ہے ، شرعی امور میں سے ہے اور منہیات ہے بیچنا بھی اس راہ کی ضروریات میں سے ہے اور فرائض کا ادا کرنا مقربات سے ہے اور راہ جین رہنما پیر کا طلب کرنا بھی تا کہ وسیلہ ہو سکے شرعی امور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الوسيلة ( اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو ) غرض شریعت سے چارہ نہیں ۔ خواہ شریعت کی صورت ہو خواه شریعت کی حقیقت کیونکہ ولایت و نبوت کے تمام کمالات کی جڑ احکام شرعی ہیں ۔ کمالات ولا بیت صورت شریعت کا نتیجہ ہیں اور کمالات نبوت حقیقت شریعت کا ثمرہ جیسے کہ آگے بیان کیا جائے گا ۔ انشاء اللہ تعالی ۔


واریت کا مقصد طریقت ہے جہاں ماسوا کی نفی مطلوب ہے اور غیر وغریت کا رفع مقصود ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماسوا بالکل نظر سے دور ہو جاتا ہے اور دید میں اغیار کا نام ونشان نہیں رہتا تو فن حاصل ہو جاتی ہے اور مقام طریقت ختم ہو جاتا ہے اور سیر الی اللہ تمام ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مقام اثبات میں سیر شروع ہو جاتا ہے جس کو سیر فی اللہ سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی مقام ابقاء ہے جو حقیقت کا موطن ہے جو ولایت سے اعلیٰ مقصد ہے۔ اس طریقت و حقیقت پر جو فناو اتقا ء ہے ، ولایت کا اسم صادق آتا ہے اور امارہ مطمئنہ ہو جاتا ہے اور کفر و انکار سے ہٹ جاتا ہے اور اپنے مولی سے راضی ہو جاتا ہے اور مولی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور اس کی پیدائشی کراہت دور ہو جاتی ہے۔ اگرچہ کہتے ہیں کہ نفس مقام اطمینان میں بھی آ کر اپنی سرکشی سے باز نہیں آتا ۔

ہهر چند که نفس مطمعنه گردد
هرگز از صفات خود نگردد

نفس اگر چہ مطمئنہ ہو جائے
پر اپنی صفات سے نہ باز آئے

جہاد اکبر جو اس حدیث میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ رجعنا من الجهاد الاصغر الى الجهاد الاكبر ہم جہاد اصغر سے جہادا کبر کی طرف آئے ہیں ۔


اس سے مرا نفس کا جہاد ہے مگر جو چو فقیہ کے کشف میں آیا ہے اور اپنے وجد ان سے معلوم یا ہے ، اس علم متعارف مشہور کے بر خلاف ہے۔ اطمینان کے حاصل ہونے کے بعد یہ فقیر نفس میں کسی قسم کی سرکشی اور نافرمانی معلوم نہیں کرتا بلکہ اس کو تابعداری کے مقام میں برابر دیکھتا ہے اور قلب متمکن کی طرح جس سے ماسوا کا نسیان ہو چکا ہے، معلوم کرتا ہے کیونکہ نفس اس وقت غیر و غیریت کی دید و دانش سے گزرا ہوتا ہے اور جب جاہ دریاست اور لذت والم سے آزاد ہوا ہوتا ہے


پھر مخالف و سرکشی کہاں۔ ہاں اطمینان کے حاصل ہونے کے بعد مخالف و سرکشی کی مجال نہیں ۔ فقیر نے ہر چند اس بارہ میں غور کی نظر سے دیکھا اور اس معمہ کے حل میں اور دور تک فکر کیا لیکن اللہ تعالی کی عنایت سے ان لوگوں کی مقررہ بات کے برخلاف ہی نظر آیا یعنی نفس مطمئنہ میں کسی قسم کی سرکشی اور مخالفت نہ پائی اور فانی اور نا چیز ہونے کے سوا اس میں کچھ نہ دیکھا۔ جب نفس اپنے آپ کو مولا جل شانہ پر فدا کر دے پھر مخالفت کہاں ہو سکتی ہے اور جب نفس اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گیا تو طغیان و سرکشی جو رضا کے منافی ہے، کس طرح ہو سکتی ہے ۔ حق تعالیٰ کی مرضی ہرگز نا مرضی نہیں ہو سکتی اور جہادا کبر سے مراد فقیر کے نزدیک و الله سبحانه اعلم بحقيقة الحال ہو سکتا ہے کہ قالب کا جہاد ہو جو مختلف طبیعتوں سے مرکب ہے اور اس کی ہر ایک طبیعت ایک امر کو چاہتی ہے اور دوسرے سے بھاگتی ہے۔ اگر قوت شہوی ہے تو وہ بھی قالب سے پیدا ہے اور اگر غنی ہے تو وہ بھی وہیں سے ظاہر ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ تمام حیوانات جن میں نفس ناطقہ نہیں ہے۔ ان میں یہ تمام صفات رذیلہ موجود ہیں اور شہوت وغضب وشرہ وحریس سے متصف ہیں ۔ یہ جہاد ہمیشہ تک قائم ہے۔ نفس کا اطمینان اس جہاد کوکم نہیں کر سکتا اور قلب کی تمکین اس لڑائی کو رفع نہیں کر سکتی ۔ اس جہاد کے باقی رکھنے میں بہت سے فائدے ہیں جو قالب کے پاک و صاف کرنے میں کام آتے ہیں حتی کہ اس جہان کے کمالات اور آخرت کا معاملہ اصل میں اسی پر وابستہ ہے کیونکہ اس جان کے کمالات میں قالب تابع ہے اور قلب متبوع ۔ وہاں کام بر عکس ہے۔ قلب تابع ہے اور قالب متبوع ۔ جب یہ جہان درہم برہم ہو جائے گا اور وہ جہان پر تو ڈالے گا یہ جہاد و قتال بھی ختم ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفس مقام اطمینان میں آ جاتا ہے اور حکم الہی کے تابع ہو جاتا ہے تو اسلام حقیقی میسر ہو جاتا ہے اور ایمان کی حقیقت حاصل ہوتی ہے۔ بعد ازاں جو کچھ عمل میں آئے گا،شریعت کی حقیت ہوگی۔

اگر نماز ادا کرے گا تو نماز کی حقیقت ہوگی اور اگر روزہ یا حج ہے تو روزہ و حج کی حقیقت ہوگی۔ دوسرے احکام شرعیہ کا بجالانا بھی اسی قیاس پر ہوگا۔ پس طریقت و حقیقت دونوں شریعت کی صورت اور اس کی حقیقت کے درمیان متوسط ہیں ۔ جب تک ولایت خاصہ سے مشرف نہ ہوں۔ اسلام مجازی سے اسلام حقیقی تک نہیں پہنچ سکتے ۔ جب سالک محض فضل

خداوندی سے شریعت کی حقیقت کے ساتھ آراستہ ہو جاتا ہے اور اس کو اسلام حقیقی میسر ہو جاتا ہے تو اس بات کے لائق ہو جاتا ہے کہ کمالات نبوت سے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت اور تبعیت کے طور پر کامل حصہ پائے جس طرح شریعت کی صورت کمالات ولایت کے لیے شجرہ طیبہ یعنی پاک درخت کی طرح ہے۔ گویا کمالات ولایت صورت شریعت کے ثمرات ہیں۔ اسی طرح شریعت کی حقیقت بھی کمالات نبوت کے لیے شجرہ طیبہ کی طرح ہے اور کمالات نبوت گو یا حقیقت شریعت کے ثمرات ہیں۔ جب ولایت کے کمالات صورت کا ثمرہ ہیں اور کمالات نبوت حقیقت کا ثمرہ تو اس لحاظ سے کمالات نبوت حقائق کی طرح ہوں گے اور کمالات ولایت ان کی صورتوں کی طرح۔ جاننا چاہئے کہ جس طرح صورت شریعت اور حقیقت شریعت کے درمیان فرق نفس کی جہت سے پیدا ہوا تھا یعنی صورت شریعت میں نفس امارہ نافرمان اور اپنے انکار پر تھا اور حقیقت شریعت میں نفس مطمئنہ اور مسلمان ہو گیا ہے اسی طرح کمالات ولایت میں جو صورتوں کی طرح ہیں اور کمالات نبوت میں جو حقیقتوں کی مانند ہیں۔ قالب کی جہت سے فرق ہے۔ مقام ولایت میں قالب کے اجزاء اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہیں آتے ۔ مثلاً اس کا جزو ناری نفس کے اطمینان کے باوجود اپنی بہتری اور تکبر کا دعویٰ نہیں چھوڑتا اور جز وفا کی اپنی خست اور کمینہ پن سے پشیمان نہیں ہوتا۔ دوسرے اجزاء کا بھی یہی حال ہوتا ہے مگر کمالات نبوت کے مقام پر قالب کے اجزاء بھی اعتدال پر آ جاتے ہیں اور افراط و تفریط سے ہٹ جاتے ہیں۔


ممکن ہے کہ اسی سبب سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہو کہ اسلَمَ شَيْطَانِی یعنی میرا شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے جس طرح شیطان آفاق میں ہے۔ نفس میں بھی ہے اور وہ جزو ناری ہے جو خیریت و بہتری کا مدعی اور تکبر و رفعت کا خواہاں ہے جو تمام صفات رذیلہ میں سے بدتر صفات ہیں اور اس کے اسلام لانے سے مراد یہ ہے کہ یہ صفات رذیلہ اس سے دور ہو جائیں۔ پس کمالات نبوت میں قلب کی تمکین بھی ہے اور نفس کا اطمینان بھی اور قالب کے اجزاء کا اعتدال بھی اور ولایت میں صرف قلب کی تمکین ہے یا کچھ کچھ نفس کا اطمینان اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ کچھ کچھ نفس کا اطمینان ۔

اس لیے کہا ہے کہ نفس کو کامل اور بے تکلف اطمینان اجزاء قالب کے اعتدال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب ولایت اجزاء قالب کے معتدل نہ ہونے کے باعث مطمئنہ کا صفات بشریت کی طرف رجوع کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ اوپر گزر چکا مگروہ اطمینان جو نفس کو اجزاء قالب کے اعتدال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ صفات رذیلہ کی طرف رجوع کرنے سے پاک دمبرا ہے۔

پس نفس کے رزائل کی طرف رجوع کرنے یا نہ کرنے کا اختلاف نظروں اور مقامات کے ختلافات پر مبنی ہے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے مقام کی نسبت خبر دی ہے اور جو کچھ کسی حاصل ہوا ہے، اس کی نسبت گفتگو کی ہے۔

سوال: جب قالب کے اجزاء بھی حد اعتدال پر آجائیں اور سرکشی اور نافرمانی سے ہٹ جائیں پھر ان کے ساتھ جہاد کی کیا ضرورت ہے؟ نفس مطمئنہ کے جہاد کی کیا صورت ہے۔ نفس طمئنہ کے جہاد کی طرح ان کا جہاد بھی مرتفع ہے۔

جواب : مطمئنہ اور ان اجزاء کے درمیان فرق ہے کیونکہ مطمئنہ فانی اور نا چیز ہے اور عالم امر سے ملا ہوا ہے۔ جو کمال فنا اور سکر سے متصف ہے اور یہ اجزاء احکام شرعیہ کے بجالانے کے اعث جن کی بنیاد صحو پر ہے، فناوسکر کے ساتھ مناسبت نہیں کرتے اور جو فانی اور مستہلک ہو اس میں مخالفت کی گنجائش نہیں رہتی اور وہ جو صو ر کھتا ہے۔ اگر بعض مصلحتوں اور منافع کے واسطے بعض مور میں مخالفت کی صورت ظاہر کرے تو ہو سکتا ہے امید ہے کہ یہ مخالفت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترک مستحب سے اوپر نہ جائے گی اور مکروہ تنزیہی کے ارتکاب سے نیچے نہ آئے گی۔ پس قالب کے مرتبہ میں اس کے اجزاء کے اعتدال کے باوجود جہاد متصور ہوگا اور مطمئنہ میں جہاد نا جائز ہوگا۔ اس بحث کی تحقیق مکتوبات کی جلد اول میں اس مکتوب میں جو طریق کے بیان میں اپنے رزند اعظم مرحوم کے نام لکھا ہے، مفصل طور پر درج ہو چکی ہے۔ اگر کوئی امر پوشیدہ رہ گیا ہوتو ہاں سے معلوم کر لیں ۔ مگر محض فضل خداوندی جل شانہ سے کمالات نبوت بھی جو حقیقت شریعت کے نتائج و ثمرات ہیں، انجام تک پہنچ جائیں تو آگے ترقیات وہاں اعمال پر موقوف نہیں ۔ اس مقام کا معاملہ حق تعالیٰ کے محض فضل و احسان پر موقوف ہے وہاں اعتقاد کا کچھ اثر ہیں علم وعمل کی کچھ حقیقت نہیں ۔ فضل در فضل و کرم در کرم ہے۔ یہ مقام پہلے تمام مقامات کی نسبت بہت بلند اور وسیع ہے اور اس قسم کی نورانیت رکھتا ہے جس کا پہلے مقامات میں کچھ اثر نہ تھا۔ یہ مقام اصلی طور پر اولوالعزم انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے یا کچھ کچھ ان لوگوں کے ساتھ جن کو وراثت و تبعیت کے طور پر اس مقام سے مشرف فرمائیں۔


بر کریماں کا رہا دشوار نیست
ترجمہ: کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام


اس مقام میں کوئی یہ غلطی نہ کھا جائے اور یہ نہ کہے کہ اس مقام میں شریعت کی صورت و حقیقت سے استغنا حاصل ہو جاتی ہے اور احکام شرعیہ کے بجالانے کی کچھ حاجت نہیں رہتی کیونک میں کہتا ہوں کہ شریعت ہی اس کام کا اصل اور اس معاملہ کی بنیاد ہے۔ درخت جس قدر بلند او سرفراز ہوتا جائے اور دیوار جس قدر بلند ہوتی جائے اور اس پر بلند مکان بنتے جائیں اصل و بنیا سے مستغنی نہیں ہوتے اور ذاتی احتیاج ان سے زائل نہیں ہوتی ۔ مثلا خانہ بلند خواہ کس قدر اونچا ہے جائے اور پستی سے بہت دور تک بلند ہو جائے نیچے کے گھر کے سوا اس کا چارہ نہیں اور نیچے کے گھر سے اس کی احتیاج دور نہیں ہوتی ۔ اگر بالفرض نچلے گھر میں کسی قسم کا خلل پڑ جائے تو اوپر کے خاتے میں بھی وہ خلل اثر کر جائے گا اور نچلے گھر کا زوال او پر کے گھر کوزائل کر دے گا۔


پس شریعت ہر وقت و ہر حال میں درکار ہے اور ہر شخص اس کے احکام بجالانے کا محتات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عنایت سے معاملہ اس مقام سے بھی بلند ہو جائے اور تفضل سے محبت کی نوبت آجائے تو اس سے آگے ایک اور نہایت بلند مقام آتا ہے جو اصلی طور پر خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہی مخصوص ہے اور وراثت و تبعیت کے طور پر دیکھیں کس کو اس دولت سے مشرف فرماتے ہیں۔ اس بلند محل میں جو نہایت بلندی کے باعث اچھی طرح نظر نہیں آ سکتا یہ فقیر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو وراثت کے طور پر ناف تک داخل شدہ معلوم کرتا ہے اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ بھی اسی دولت سے سرفراز ہیں اور امہات المومنین میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی ازدواج کے علاقہ کے باعث آنحضرت کے پاس دیکھتا ہے ۔

وَالامُرُ إِلَى اللهِ سُبْحَانَهُ پوری حقیقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ رَبَّنَا اتنا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيْءُ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَداً یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فر اور ہمارے کام سے بہتری ہمارے نصیب کر ) برادرم عزیز معارف آگاه شیخ عبدالحئی جو مدتوں اور سالوں تک فقیر کی صحبت میں رہے ہیں، اب چونکہ اپنے وطن کی طرف جانے والے تھے اور وہ مقام بھی انہی کی جناب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لیے چند سطریں لکھی گئی ہیں اور مشار الیہ کے احوال پر اطلاع دی گئی ہے۔ اہل اللہ کا وجود جہاں کہیں ہو، غنیمت ہے اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے موجب بشارت ہے۔ فَطُوبَى مِنَ عَرَفَهُمُ (مبارک ہیں وہ لوگ جو ان کو پہچان لیں۔ اسی جگہ بیر اور عزیز شیخ نور محد بھی اقامت رکھتے ہیں اور فقر و نامرادی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس جگہ پر رشک آتا ہے جہاں اس قسم کے دو اہل اللہ جمع ہیں اور قران السعدین یعنی دو نیک ستاروں کے
اجتماع متحقق و ثابت ہے ۔ والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا