مکتوب 51
حق تعالی کا بعض کاملین کے ساتھ بالمشافہ و رو برو کلام کرنے کے بیان میں خواجہ محمد صدیق کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلام” على عباده الذين اصطفی (اللہ تعالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )
برادرم محمد صدیق کو واضح ہو کہ حق تعالیٰ کی کلام بندے کے ساتھ کبھی رو برو بلا واسطہ ہوتی ہے۔ اس قسم کی کلام انبیا علیہم الصلوۃ والسلام میں سے بعض افراد کے لیے ثابت ہے اور کبھی انبیا . ليهم الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں کے لیے بھی ہوتی ہے جو وراثت و تبعیت کے طور پر ان کے کمالات سے مشرف ہوتے ہیں۔ جب اس قسم کی کلام ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بکثرت ہو تو ایسے شخص کو محدث کہتے ہیں۔ جیسے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ کلام الہام اور تقاء روحانی اور قلبی اور اس کلام سے جو فرشتہ کے ساتھ ہوتی ہے، الگ ہے۔ اس قسم کی کلام کے ساتھ انسان کامل مخاطب ہوتا ہے جو عالم امر و عالم خلق اور روح ونفس اور عقل و خیال کا جامع و وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے رگزیدہ کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ رو برو کلام کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کلام کرنے والا سننے والے کو دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سننے والے کی آنکھیں کمز ور و ضعیف ہوں جو متکلم کے انوار کی چمک برداشت نہ کر سکتی ہوں جیسے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس سوال کے جواب میں جو رویت کی بابت آپ سے پوچھا گیا تھا، فرمایا کہ نور انی اراہ ۔ وہ نور ہے، میں اس کو کیسے دیکھ سکوں نہ کہ وجودی ، فانہم ۔ یہ معرفت تشریفہ اس قسم کی ہے کہ آج تک کسی نے بیان نہیں کی ۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی۔