0

مکتوب 53: اس استفسار کے جواب میں کہ اگر عبادت کروں تو نفس کو استغنا حاصل ہو جاتا ہے


مکتوب 53

اس استفسار کے جواب میں کہ اگر عبادت کروں تو نفس کو استغنا حاصل ہو جاتا ہے اور اگر کوئی لغزش اور خلاف شرع کار مجھ سے صادر ہو تو شکستگی اور ندامت پیدا ہوتی ہے ۔ گردونواح کے مشائخ کی طرف لکھا ہے۔


الحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطفی (اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔ )

آپ نے پوچھا تھا کہ اگر میں اپنے آپ کو ریاضت و عبادت میں مشغول کرتا ہوں تو نفس میں استغنا پیدا ہوتی ہے اور جانتا ہے کہ میرے جیسا کوئی نیک نہیں اور اگر کوئی خلاف شرع امر صادر ہوتا ہے تو اپنے آپ کو عاجز ومحتاج خیال کرتا ہے، اس کا علاج کیا ہے۔


اے توفیق کے نشان والے شق ثانی میں احتیاج و فروتنی کا پیدا ہونا جوندامت کی خبر دیتا ہے۔ نعمت عظیم ہے اور اگر خلاف شرع کر چکنے کے بعد ندامت بھی جو تو بہ کی شاخ ہے، پیدا نہ ہو اور گناہ کر لینے سے متلذذ و محظوظ ہو تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ کیونکہ گناہ کی لذت حاصل کرنا گناہ پر اصرار کرنا ہے اور گناہ صغیرہ پر اصرار کرنا کبیرہ تک پہنچا دیتا ہے اور کبیرہ پر اصرار کرنا کفر کی دہلیز ہے۔ اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے تا کہ زیادہ زیادہ ندامت پیدا ہو اور خلاف شریعت کرنے سے ہٹا دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ لَئِنْ شَكرُ تُم لَا زِيدَنَّكُمْ (اگر تم شکر کرو گے تو زیادہ دوں گا ۔ ) شقل اوّل کا حاصل اعمال صالحہ کے بجالانے سے عجب و تکبر کا حاصل ہونا ہے۔ یہ ایساز بر قاتل اور مرض مہلک ہے جو عمل صالحہ کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ جیسے کہ آگ ایندھن کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے، عجب و تکبر کا باعث یہ ہے کہ اعمال صالحہ عامل کی نظر میں زیبا و پسندیدہ دکھائی دیتے ہیں ۔ فَالْمُعَالَجَةُ بالاضداد ( علاج ضد کے ساتھ ہوتا ہے ) یعنی اپنی نیکیوں کو مہتم یعنی تہمت زدہ معلوم کرے اور نیکیوں کی پوشیدہ قباحتوں کو نظر میں لائے تا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اعمال کو قاصر و کوتاہ جانے بلکہ لعنت اور رد ہونے کے لائق خیال کرے۔


رسول خدا صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ۔ رُبَّ تالِ لِلقْرانِ والْقُرْآنُ يَلْعَهُ وَكَمْ مِنْ صَالِحٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّلَمَاء وَالْجُو بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان کو لعنت کرتا ہے اور بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے ان کو کچھ حاصل نہیں ۔


یہ خیال نہ کریں کہ آپ کی نیکیوں میں کوئی برائی نہیں ۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ سے بھی کام لیں گے تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی عنایت سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی تمام نیکیاں برائیاں ہی برائیاں ہیں اور ان میں کسی قسم کی حسن و خوبی نہیں ۔ پھر عجب واستغنا کہاں بلکہ اپنے اعمال کو قاصر دیکھنا اس قدر غالب آئے گا کہ آپ نیکیوں کو بجالانے سے شرمندہ اور نادم ہوں گے نہ کہ متکبر و مغرور ۔ جب اعمال میں دید تصور پیدا ہو جائے اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور قبولیت کے لائق ہو جاتے ہیں، کوشش کریں کہ یہ دید پیدا ہو جائے تا کہ عجب و تکبر دور ہو جائے ۔ وبدونه خرط الْقَتَادِ إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ رَبِّي شَيْئًا (ورنہ بے فائدہ رنج ہے ۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو مشکل نہیں ) بعض لوگ جن کو یہ دید قصور کامل طور پر حاصل ہو جاتی ہے، ایسا خیال کرتے ہیں کہ دائیں ہاتھ یعنی نیکیوں کا لکھنے والا معطل اور بیکار ہے اور کوئی نیکی نہیں جو اس کے لکھنے کے لائق ہو اور بائیں ہاتھ یعنی برائیوں کا لکھنے والا ہمیشہ اپنے کام میں ہے کیونکہ جو کچھ اس سے سرزد ہوتا ہے اس کی نظر میں برا ہی دکھائی دیتا ہے۔ جب عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہوتا ہے جو ہوتا ہے۔


قلم این جارسید و و سر بشکست

ترجمہ یہاں آکر قلم کا کٹ گیا سر


وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا