مکتوب 55
اس بیان میں کہ قرآن مجید تمام احکام شرعیہ کا جامع ہے اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مناقب اور اس بیان میں کہ اس کام کی اصل شریعت ہے اور صوفیا ، علیا کی تعریف اور اس امر میں کہ احکام الہامیہ ہر وقت ثابت ہیں اور اس کے مناسب بیان میں مخدوم زادوں یعنی خواجہ محمد سعید و خواجہ محمد معصوم سلمہا اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )
قرآن مجید تمام احکام شرعیہ بلکہ تمام گزشتہ شریعتوں کا جامع ہے۔ اس شریعت کے بعض احکام شریف اس قسم کے ہیں جو نص کی عبارت اور اشارت اور دلالت اور اقتضا سے مفہوم ہوتے ہیں۔ اس قسم کے احکام کے فہم میں تمام خاص و عام اہل لغت برابر ہیں ۔ وہ 5 قسم کے احکام وہ ہیں جو اجتہاد اور استنباط سے مفہوم ہوتے ہیں۔ یہ نہم ائمہ مجتہدین کے ساتھ مخصوہ ، ہے جن میں سے اول آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی امت کے تمام مجتہد ہیں لیکن آنحضرت 1 ماہ جس جو دہی کا زمانہ تھا ، احکام اجتہاد یہ خطاب وصواب کے درمیان متردد نہ تھے بلکہ وہی قطعی کی ساتھ حق بلاری سے اور صواب خطا سے الگ اور متمیز ہو جاتا تھا کیونکہ پیغمبر کو خطا پر ثابت و برقرار رکھنا جائز نہیں بر خلاف ان احکام کے جو زمانہ وحی کے ختم ہو جانے کے بعد مجتہدوں کے استنباط کے طریق پر حاصل ہوئے ہیں اور جو صواب و خطا میں متردد ہیں، اسی واسطے وہ احکام اجتہاد یہ جو وحی کے زمانہ میں مقرر ہوئے ہیں۔
یقین کا فائدہ دیتے ہیں جن سے عمل و اعتقاد کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور زمانہ وحی کے بعد کے احکام ظن کا موجب ہیں جو مفید عمل ہیں لیکن اعتقاد کا موجب نہیں۔ قرآن مجید کے تیسری قسم کے احکام اس قسم کے ہیں جن کے سمجھنے سے انسان کی طاقت عاجز ہے۔ جب تک احکام کے نازل کرنے والے جل شانہ کی طرف سے اطلاع نہ ملے، ان احکام کو سمجھ نہیں سکتے ۔ اس اعلان و اطلاع کا حاصل ہونا پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے۔ پیغمبر کے سوا کسی اور کو یہ اطلاع نہیں دیتے۔ یہ احکام اگر چہ کتاب ہی سے ماخوذ ہیں لیکن چونکہ ان احکام کا مظہر پیغمبر ہے۔ اس لیے یہ احکام سنت کی طرف منسوب ہوئے ہیں کیونکہ ان کا مظہر سنت ہے۔
جس طرح احکام اجتہادیہ کو قیاس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ قیاس ان احکام کا مظہر ہے۔ پس سفت و قیاس دونوں احکام کے مظہر ہیں ۔ اگر چہ ان دونوں مظہروں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ایک آراء کی طرف منسوب ہے جس میں خطا کی مجال ہے اور دو سراحق تعالیٰ کے اعلام سے موید ہے جس میں خطا کی گنجائش نہیں۔ قسم اخیر اپنی اصل کے ساتھ بہت مشابہت رکھتی ہے۔ گویا احکام کو ثابت کرنے والی ہے۔ اگر چہ تمام احکام کو ثابت کرنے والی فقط وہی کتاب عزیز ہے۔ جانا چاہئے کہ احکام اجتہادیہ میں پیغمبر کے غیر کو پیغمبر کے ساتھ خلاف کی مجال ہے۔ بشرطیکہ وہ غیر شخص مرتبہ اجتہاد تک پہنچ چکا ہو لیکن ان احکام میں جو نص کی عبارت و دلالت و اشارت سے ثابت ہیں اور ایسے ہی ان احکام میں جن کا مظہر سنت ہے۔ کسی کو مخالفت کی مجال نہیں بلکہ تمام امت پر ان احکام کی اتباع لازم ہے۔ پس امت کے مجہتدوں کو لازم نہیں کہ احکام اجتہاد یہ میں پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی رائے کی متابعت کریں بلکہ اس مقام میں ان کی اپنی رائے کی متابعت بہتر اور صواب ہے۔ یہاں ایک دقیقہ ہے جس کا جاننا ضروری ہے۔
وہ پیغمبر جواد العزم پیغمبروں کی متابعت کرتے تھے ، ان پر انہبی احکام کا اتباع واجب ہوتا ہے جو ان کتابوں اور صحیفوں میں نص کی عبارت واشارت و دلالت سے ثابت تھے ۔ نہ ان احکام میں جو ان کے اجتہاد اور سنتوں سے ظاہر ہوئے تھے کیونکہ احکام اجتہادیہ میں جب امت کے مجتہد کو متابعت لازم نہیں جیسے کہ گزر چکا تو پیغمبر متابعت کرنے والے کو کس طرح متابعت لازم ہوگی اور وہ احکام جن کا مظہر سنت ہے جس طرح پیغمبر اولوالعزم کو یہ احکام اعلام کے ساتھ حاصل ہیں۔ اسی طرح غیر اولوالعزم پیغمبر کو وہ احکام اللہ تعالیٰ کے اعلان سے حاصل ہیں۔ پھر ان میں متابعت کی کیا گنجائش ہے کیونکہ ہر وقت و ہر گروہ کے مناسب جدا جدا احکام ہیں۔ کبھی حل مناسب ہوتی ہے۔ کبھی حرمت اولو العزم پیغمبر کو ایک امر کے حلال ہونے کا حکم ہوا تھا
اور غیر اولوالعزم پیغمبر کو اسی امر کے حرام ہونے کا اعلام ۔ یہ حل و حرمت دونوں صحیفہ منزلہ سے ماخو ہیں۔ جس طرح کہ دو مجتہد ایک ماخذ سے دو مختلف حکم اخذ کر لیتے ہیں ۔ ایک حل سمجھ لیتا ہے ۔ اسی سے حرمت نکال لیتا ہے۔
سوال : یہ اختلاف اس اجتہاد میں گنجائش رکھتا ہے جس کا مدار رائے پر ہے جو صواب کا بھی اور خطا کا بھی احتمال رکھتا ہے لیکن یہ معنی حق تعالیٰ کے اعلام میں گنجائش نہیں رکھتے کیونکہ وہاں سواب؟ خطا میں تردد جائز نہیں بلکہ حق تعالیٰ کے نزدیک یقینا ایک ہی حکم ہے یعنی اگر حل ہے اس میں حرمت کی گنجائش نہیں اور اگر حرمت ہے اس میں حل کی مجال نہیں ۔
جواب: ہو سکتا ہے کہ ایک قوم کی نسبت حل ہو اور دوسری قوم کی نسبت حرمت ۔ پس اللہ تعالی کا حکم ایک واقعہ میں قوم کے متعدد ہونے کا اعتبار سے متعدد ہوگا اور اس میں کچھ ڈر نہیں ۔ ہاں حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کی امت میں یہ بات درست نہیں کیونکہ اس شریعت میں تمام لوگ ایک ہی حکم کے محکوم ہیں ۔ یہاں ایک واقعہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو حکم نہیں ہیں ۔
سوال : جب کسی اولوا العزم پیغمبر نے ایک امر کے حل ہونے کا حکم کیا ہو اور دوسرے اس کے تابعدار پیغمبر نے اس امر کی حرمت کا حکم دیا ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ دوسرا حکم پہلے حکم کا ناسخ ہو اور یہ جائز نہیں کیونکہ سخاولو العزم پیغمبر کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا اور کوئی تاریخ نہیں ہوسکتا۔
جواب : نسخ اس وقت لازم آتا ہے جب کہ دوسرا حکم تمام مخلوقات کے لیے عام ہوتا کہ پہلے حکم کو جو ایک گروہ کی نسبت واقع ہوا تھا، رفع کرے لیکن دوسرا حکم عام نہیں ہے بلکہ ایک گروہ کی نسبت حرمت کا حکم کیا ہے۔ اس لئے پہلے حکم کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتا۔ کیا نہیں دیکھتے کہ ایک واقعہ میں ایک مجتہدحل کا حکم کرتا ہے اور دوسرا مجتہد اسی واقعہ میں حرمت کا حکم اور اس میں کوئی نسخ نہیں اگر چہ حکم مجتہد اور حکم پیغمبر کے درمیان بڑا فرق ہے کہ ایک میں رائے ہے اور دوسرے میں اعلام ۔ رائے میں حکم کا تعدد گنجائش رکھتا ہے اور اعلام میں اس کی کچھ گنجائش نہیں لیکن قوم کا تعدد اس کا علاج کر دیتا ہے۔ جیسے کہ گزر چکا۔
پس گزشتہ شریعتوں میں وہ احکام جو اولوالعزم پیغمبروں کی کتابوں اور صحیفوں سے لغت کے اعتبار سے مفہوم ہوتے تھے ۔ ان کے تابعدار پیغمبروں کو بھی ان میں مخالفت کی مجال نہ تھی کیونکہ وہ احکام تمام مخلوقات کے حق میں وارد ہوتے تھے۔ کوئی پیغمبر جوکسی قوم کو دعوت کر دیتا تھا، ان احکام کے خلاف تبلیغ نہ کرتا تھا۔ اگر حل تھی تو سب کے لیے حل تھی اور اگر حرمت تھی تو سب کے لیے تا وقتیکہ دوسرا اولوا العزم پیغمبر آتا اور اس حکم کو رفع فرماتا ۔ اس وقت نسخ متصور ہوتا تھا۔
پس نسخ انہی احکام کے اعتبار سے ہے جو لغت کے موافق صحیفہ منزلہ سے ماخوذ ہیں لیکن وہ احکام جو اجتہاد اور اعلام سے ثابت ہوئے ہیں اور سنت و اجتہاد کی طرف منسوب ہیں، ان میں نسخ متصور نہیں کیونکہ یہ احکام بعض کے لیے ہیں بعض کے لیے نہیں ۔ پس ایک پیغمبر کا اجتہاد اور سنت دوسرے پیغمبر کے اجتہاد و سنت کو رفع نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ایک قوم کے لیے ہے اور وہ دوسری قوم کے لیے اور اگر یہ اختلاف تمام لوگوں کی نسبت ہو یا فقط ایک ہی گروہ کی نسبت ہوتو پھر البتہ سخی ہے جس طرح اس شریعت میں کہ سب لوگوں کے لیے یکساں حکم ہے۔ حکم ثانی حکم اول کا ناسخ ہے۔
پس ہمارے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کی پچھلی سنت پہلی سنت کی ناسخ ہوگی ۔ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام جو نزول کے بعد اس شریعت کی متابعت کریں گے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی سنت کی اتباع بھی کریں گے کیونکہ اس شریعت کا نسخ جائز نہیں عجب نہیں کہ علماء ظاہر حضرت عیسی علیہ السلام کے مجتہدات سے ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں اور ان کو کتاب وسنت کے مخالف جائیں۔
حضرت عیسی روح اللہ کی مثال حضرت امام اعظم کو فی رحمتہ اللہ علیہ کی سی مثال ہے ۔ جنہوں نے ورع و تقویٰ کی برکت اور سنت کی متابعت کی دولت سے اجتہاد اور استنباط میں وہ درجہ بلند حاصل کیا ہے جس کو دوسرے لوگ سمجھ نہیں سکتے اور ان کے مجتہدات کو دقت معانی کے باعث کتاب وسنت کے مخالف جانتے ہیں اور ان کو اور ان کے اصحاب کو رائے رائے خیال کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ان کی حقیقت وروایت تک نہ پہنچنے اور ان کے فہم وفراست پر
اطلاع نہ پانے کا نتیجہ ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہ جس نے ان کی فقاہت کی باریکی سے تھوڑا سا حصہ حاصل کیا ہے۔ فرمایا ہے کہ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمُ عِيَالُ أَبِي حَنِيفَةَ ( فقہا سب ابوحنیفہ کے عیال ہیں ) ان کم ہمتوں کی جرات پر افسوس ہے کہ اپنا قصور دوسروں کے ذمے لگاتے ہیں ۔
بیت
قاصرے گر کند ایں طائفہ را طعن و قصور
حاشا لله که برز آرم بزبان این گله را
ہمہ شیران جہاں بستہ ایں سلسلہ اند
رو به از حیله چال بگسلد این سلسله را
ترجمه بیت
گر کوئی قاصر لگائے طعن ان کے حال پر
تو بہ تو بہ گر زبان پر لاؤں میں اس کا گلہ
شیر میں باندھے ہوئے اس سلسلہ میں سب کے سب
لومڑی حیلہ سے توڑے کس طرح یہ سلسلہ
اور یہ جو خوابہ محمد پارسا رحمتہ اللہ علیہ نے فصول ستہ میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نزول کے بعد امام ابو حنیفہ کے مذہب کے موافق عمل کریں گے۔ ممکن ہے کہ اسی مناسبت کے باعث جو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت عیسی کے ساتھ ہے، لکھا ہو یعنی حضرت روح اللہ کا اجتہاد حضرت امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے اجتہاد کے موافق ہوگا نہ یہ کہ ان کے مذہب کی تقلید کریں گے کیونکہ حضرت روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی شان اس سے برتر ہے کہ علماء امت کی تقلید کریں۔ بلا تکلف و تعصب کہا جاتا ہے کہ اس مذہب حنفی کی نورانیت کشفی نظر میں دریائے عظیم کی طرح دکھائی دیتی ہے اور دوسرے تمام مذہب حوضوں اور نہروں کی طرح نظر آتے ہیں اور ظاہر میں بھی جب ملاحظہ کیا جاتا ہے تو اہل اسلام کے سواد اعظم یعنی بہت سے لوگ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے تابعدار ہیں ۔ یہ مذہب باوجود بہت سے تابعداروں کے اصول و فروغ میں تمام مذہبوں سے الگ ہے اور استقباط میں اس کا طریق علیحدہ ہے اور یہ معنی اس کی حقیقت یعنی حق ہونے کا پتا بتاتے ہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمتہ سنت کی پیروی میں سب سے آگے ہیں۔ حتی که احادیث مرسل کو احادیث مسند کی طرح متابعت کے لائق بنا۔ نتے اور اپنے طور پر مقدم سمجھتے ہیں اور ایسے ہی صحابہ کے قول کو حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی شرف صحبت کے باعث اپنی رائے پر مقدم جانتے ہیں، دوسروں کا ایسا حال نہیں ۔ پھر بھی مخالف ان کو صاحب رائے کہتے ہیں اور بہت بے ادبی کے لفظ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے کہ دین کے سردار اور اہل اسلام کے رئیس کو بیزار نہ کریں اور اسلام کے سواد اعظم کو ایذا نہ دیں ۔ يُرِيدُونَ انُ يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ ( یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں )
وہ لوگ جو دین کے اندران بزرگواروں کو صاحب رائے جانتے ہیں ، اگر یہ اعتقادر رکھتے ہیں کہ یہ بزرگوار صرف اپنی رائے پر ہی حکم کرتے تھے اور کتاب وسنت کی متابعت چھوڑ دیتے تھے تو ان کے فاسد خیال کے مطابق اسلام کا ایک سواد اعظم گمراہ اور بدعتی بلکہ گروہ اسلام سے باہر ہے۔ اس قسم کا اعتقاد وہ بے وقوف جاہل کرتا ہے جو اپنی جہالت سے بے خبر ہے یا وہ زندیق جس کا مقصود یہ ہے کہ اسلام کا نصف حصہ باطل ہو جائے ۔ ان چند ناقصوں نے چند حدیثوں کو یاد کر لیا ہے اور شریعت کے احکام کو انہی پر موقوف رکھا ہے اور اپنے معلوم کے ماسوا سب کی نفی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے نزدیک ثابت نہیں ہوا ، اس کا انکار کر دیتے ہیں ۔ بیت
چوآں کر مے کہ در سنگے نہان است
زمین و آسمان او همان است
ترجمه بيت
وہ کیڑا جو کہ پتھر میں نہاں ہے
وہی اس کا زمین و آسمان ہے
ان بیہودہ تعصبوں اور فاسد نظروں پر ہزار ہا افسوس ہے ۔ فقہ کے بانی حضرت ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور فقہ کے تین حصے آپ کو مسلم ہیں اور باقی چوتھے حصہ میں سب شریک ہیں۔ فقہ میں صاحب خانہ آپ ہی ہیں اور دوسرے سب آپ کے عیال ہیں۔ باوجود اس مذہب کے التزام کے مجھے ایلام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے محبت ذاتی ہے اور میں اس کو بزرگ جانتا ہوں۔ اسی واسطے بعض اعمال نافلہ میں اس مذہب کی تقلید کرتا ہوں لیکن کیا کروں کہ دوسرے لوگ باوجود کمال علم و تقویٰ کے امام ابوحنیفہ علیہ الرحمتہ کے مقابلہ میں بچوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ وَالامُرُ إِلَى اللهِ سُبْحَانَهُ (پوری حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے)
اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ او پر گزر چکا ہے کہ احکام اجتہاد یہ اگر چہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام سے صادر ہو۔ نسخ کو ستلزم نہیں برخلاف کتاب وسنت کے احکام کے اختلاف کے جو شیخ کا موجب ہے۔ جیسے کہ اس کی تحقیق گزر چکی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ احکام شرعیہ کے ثابت کرنے میں معتبر کتاب وسنت ہے اور مجتہدوں کا قیاس اور اجتماع امت بھی حقیقت میں احکام کے مثبت ہیں۔ ان چار شرعی دلیلوں کے سوا اور کوئی ایسی دلیل نہیں جو احکام شرعیہ کو ثابت کر سکے۔ الہام حل وحرمت کو ثابت نہیں کرتا اور باطن والوں کا کشف فرض و سنت کو ثابت نہیں کرتا ولایت خاصہ والے لوگ اور عام مومنین مجتہدوں کی تقلید میں برابر ہیں۔ ان کے کشف والہام ان کو زیادتی نہیں بخشتے اور تقلید سے باہر نہیں نکالتے۔ حضرت ذوالنون علیہ الرحمۃ اور حضرت بسطامی علیہ الرحمۃ اور حضرت جنید علیہ الرحمتہ وشیلی علیہ الرحمتہ زید و بکر وعمرو خالد کے ساتھ جو عوام مومنوں میں سے ہیں، احکام اجتہادیہ میں مجتہدوں کی تقلید کرنے کے مساوی و برابر ہیں۔
ہاں ان بزرگواروں کی زیادتی اور امور میں ہے۔ کشف و مشاہدات کے صاحب اور تجلیات و ظہورات کے مالک یہی لوگ ہیں جنہوں نے محبوب حقیقی کی محبت کے غلبہ کے باعث ما سوئی اللہ سے تعلق دور کر لیا ہے اور غیر وغیریت کی دید و دانش سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو وہی حق تعالیٰ حاصل ہے اور اگر واصل ہیں تو اسی حق تعالیٰ کے ساتھ واصل ہیں۔ عالم میں رہ کر بے عالم ہیں اور با خود ہو کر بے خود ہیں۔
اگر جیتے ہیں تو اسی کے لیے اور اگر مرتے ہیں تو اسی کے لیے ان کے مبتدی محبت کے غلبہ کے باعث عالم کے ہر ایک ذرہ کے آئینہ میں محبوب و مطلوب کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہر ذرہ کو اس کے تمام اسمائی اوصفاتی کمالات کا جامع معلوم کرتے ہیں۔ ان کے منتہوں کا کیا حال بیان کیا جائے جو بے نشان ہیں۔ ان کا پہلا قدم ماسوی کا نسیان ہے۔ ان کے دوسرے قدم کی نسبت کیا کہا جائے کہ انفس و آفاق سے باہر ہے ۔ ان کا الہام سچا اور ان کا کلام راست ہے۔ ان کے اکابر علوم و اسرار کو بلا واسطہ اصل سے اخذ کرتے ہیں جس طرح مجتہد اپنی رائے و اجتہاد کا تابع ہوتا ہے۔ یہ لوگ بھی معارف و توحید میں اپنی فراست والہام کے تابع ہیں۔
حضرت خواجہ محمد پارسا قدس سرہ نے لکھا ہے کہ علم لدنی کے فیضان میں حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانیت درمیانی راسطہ ہے۔ بظاہر یہ بات ابتداء وتوسط کے حال کے مناسب ہوگی کیونکہ منتہی کا معاملہ اور ہے۔ جیسے کہ کشف صریح اس پر شاہد ہے اور اسی تحقیق کی تائید کرتی ہے۔
وہ کلام جو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے منقول ہے کہ ایک دن منبر پر چڑھ کر علوم و معارف بیان فرما رہے تھے کہ اسی اثناء میں حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام کے گزرنے کا اتفاق ہوا تو آپ نے فرمایا۔ ” اے اسرائیلی اور محمد صلى الله عليه وسلم کا کلام سن ۔ شیخ کی اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام محمدیوں میں سے نہیں ہیں۔ گزشتہ ملتوں میں سے ہیں ۔ جب یہ حال ہے تو محمد یوں کا واسطہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ علوم و معارف احکام شرعیہ کے ماسوا ہیں جن کے ساتھ اہل اللہ مخصوص ہیں۔
اگر چہ یہ معارف انہی احکام کے ثمرات و نتائج ہیں ۔ درخت لگانے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کا پھل حاصل ہو تو جب تک درخت قائم رہے تب تک پھل کی امید رہتی ہے۔ جب درخت کی جڑ میں خلل آجاتا ہے، ثمرات بھی دور ہو جاتے ہیں ۔ وہ بہت ہی بے عقل ہے تو درخت کو کاٹ ڈالے اور پھل کی امید رکھے۔ درخت کی جس قدر اچھی تربیت کریں اسی قه بر زیادہ کھل دیتا ہے۔
پھل اگر چہ مقصود ہے لیکن درخت کی فرع اور شماخ ہے۔
شریعت کو لازم پکڑنے والے اور شریعت میں سستی کرنے واے و 51) پر قیاس کرنا چاہئے جو شخص شریعت کا التزام رکھتا ہے، وہ صاحب معرفت ہے جس قدر یہ التزام زیادہ ہوگا، اس قدر معرفت زیادہ ہوگی جو شخص شریعت میں ست ہے معرفت میں بے نصیب ہے اور جو کچھ وہ اپنے خیال فاسد میں رکھتا ہے۔ اگر چہ بیج ہے، استدراج کی قسم سے ہے جس میں، جوگی اور برہمن اس کے ساتھ شریک ہیں۔ كُلُّ حَقِيقَةِ رَدَّتُهُ الشَّرِيعَةً فَهُوَ زَنْدِقَةٌ وَالحَادٌ جس حقیقت کو شریعت نے رد کر دیا وہ زندقہ اور الحاد ہے۔
پس ہو سکتا ہے کہ خواص اہل اللہ حق تعالیٰ کی ذات وصفات و انتقال کے معارف میں بعض ایسے اسرار و دقائق کو سمجھ لیں جن سے ظاہر شریعت ساکت ہے اور حرکات وسکنات میں حق تعالیٰ کا اذن یا عدم اذن معلوم کر لیں اور مرضی یعنی پسندیدہ اور غیر مرضی یعنی نا پسندیدہ کو جان لیں ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض نفلوں کا ادا کرنا نا پسند معلوم کرتے ہیں، اورال کے ترک کرنے کا اذن پا لیتے ہیں۔ کبھی نیند کو بیداری سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ احکام شرعیہ اپنے اپنے وقتوں پر موقت اور موقوف ہیں اور احکام الہامیہ ہر وقت ثابت ہیں ۔ جب ان بزرگواروں کے حرکات و سکنات اذن پر موقوف ہیں تو بیشک دوسروں کے نفل بھی ان کے لیے فرض ہوں گے۔ مثلا ایک فعل شریعت کے حکم سے ایک شخص کی نسبت نفل ہو اور وہی فعل دوسرے شخص کے لیے الہامی حکم سے فرض ہے۔ دوسرے لوگ کبھی نوافل کو ادا کرتے ہیں۔ کبھی امور مباحہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن یہ بزرگوار جب کام کو اللہ تعالیٰ کے اذن وامر سے کرتے ہیں، سب کچھ فرائض ادا کرتے ہیں۔ دوسرے کے مستحب و مباح ان کے فرائض ہیں۔ اس مضمون سے ان بزرگواروں کی شان بلند کو معلوم کرنا چاہئے۔ علماء ظاہر دین کے علوم وامور میں غیبی خبروں کو پیغمبر کی خبروں کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں اور دوسروں کو ان اخبار میں شریک نہیں جانتے۔ یہ بات وراثت کے منافی ہے اور اس میں بہت سے ایسے علوم و معارف صیحہ کی نفی ہے جو دین متین سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہاں احکام شریعہ ادلہ اربعہ یعنی چار دلیلوں پر موقوف ہیں جن میں الہام کی گنجائش نہیں لیکن احکام شرعیہ کے ماسوا بہت سے امور دینی ایسے ہیں جن میں پانچواں اصل الہام ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب وسنت کے بعد تیسرا اصل الہام ہے۔ یہ اصل جہان کے فنا ہونے تک قائم ہے۔ پس دوسروں کو ان بزرگواروں سے کیا نسبت ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ عبادت کرتے ہیں لیکن وہ عبادت نا پسند ہوتی ہے اور یہ بزرگوار بعض اوقات عبادت کو ترک کر دیتے ہیں اور وہ ترک پسند ہوتا ہے۔ اس صورت میں ان کا ترک دوسروں کے فعل سے بہتر ہے لیکن عام لوگ اس کے برخلاف حکم کرتے ہیں یعنی اس عبادت کرنے والے کو عابد جانتے ہیں اور ترک کرنے والے کو مکار سمجھتے ہیں۔
سوال : جب دین کتاب وسنت سے کامل ہو گیا پھر کماں کے بعد الہام کی کیا حاجت ہے اور وہ کونسی کمی ہے جو الہام سے پوری ہوتی ہے۔
جواب : الہام دین کے پوشیدہ کمالات کا ظاہر کرنے والا ہے۔ نہ کہ دین میں زیادہ کمالات کا ثابت کرنے والا ۔ جس طرح اجتہاد احکام کا مظہر ہے۔ اسی طرح الہام ان دقائق واسرار کا مظہر ہے جو اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے ۔ اگر چہ اجتہاد اور الہام میں واضح فرق ہے کہ وہ رائے کی طرف منسوب ہے اور یہ رائے کے پیدا کرنے والے جل شانہ کی طرف۔
پس الہام میں ایک قسم کی اصالت پیدا ہوگئی جو اجتہاد میں نہیں ۔ الہام نبی علیہ السلام کے اس اعلام کی مانند ہے جو سنت کا ماخذ ہے جیسے کہ ہر گزر چکا۔ اگر چہ الہام ملنی ہے اور وہ اعلام مقطعی رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَداً (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کاموں میں ہماری بہتری اور بھلائی نصیب کر ) وَالسَّلامُ على مَن اتَّبع الهدى ( سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )