مکتوب 56
اس بیان میں کہ عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی برائیاں اس کے حق میں نیکیوں کا حکم پیدا کر لیتی ہیں۔ مولا نا عبد القادر انبالوی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اُولئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ( یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ اللہ تعالی کی عنایت اور اس حبیب پاک صلى الله عليه وسلم کے طفیل سے عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی برائیاں اس کی نیکیاں ہو جاتی ہیں اور دوسروں کی بری صفتیں اس کی اچھی صفتیں بن جاتی ہیں۔ مثلا ریا وسمعہ جو برائیوں اور بری صفتوں میں سے ہیں، اس کے حق میں حسن و خوبی پیدا کر لیتے ہیں اور حمد و شکر کا حکم حاصل کر لیتے ہیں کیونکہ اس درویش نے تمام قسم کی عظمت و کبریائی کو اپنے سے مسلوب کر کے حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کیا ہے اور تمام قسم کے حسن و جمال اور خیر و کمال کو اپنے آپ سے دور کر کے حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ اپنے آپ کو شر و نقص کے سوا کچھ نہیں جانتا اور اپنے آپ میں سوائے ذلت و محتاجی اور عجز و انکہ ہار کے کچھ نہیں دیکھتا اور اگر بالفرض عظمت و کبریائی کا کوئی حصہ بظاہر اس کی طرف متوجہ ہو تو اس کو زینہ معلوم کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اوپر کی طرف جاتا ہے اور اس جناب پاک تک جو عظمت و کبریائی کے لائق ہے، پہنچ جاتا ہے۔
اسی طرح اس کے حسن و جمال اور خیر و کمال کا حال یہ ہے کہ زینہ ہونے سے زیادہ اس کے نصیب نہیں ۔ امانتیں امانت والوں کی طرف راجع ہوتی ہیں۔ پس ریاؤ سمعہ کی صورت میں اس کا مقصود شہرت و فخر و بلندی و عظمت نہیں ہوتا بلکہ حق تعالیٰ کی اس نعمت کا اظہار اور اس احسان کا اعلام ہے جو اس کی نسبت واقع ہوا ہے۔ پس اس کا ریاؤ سمعہ حق تعالیٰ کا عین حمد وشکر ہے جو برائی سے نکل کر نیکی کی صورت میں آ گیا ہے۔ اس کی دوسری صفات کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ أُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُوراً رَحِيمًا ( یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا غفور و رحیم ہے۔)