مکتوب 57
اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کا ذکر حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجنے سے اولی وافضل ہے لیکن وہ ذکر جو قبولیت کا مرتبہ رکھتا ہو یا وہ ذکر جو شیخ طالب نے مقتدا سے اخذ کیا ہو اور اس کے مناسب بیان میں ملا غازی نائب کی طرف صادر فرمایا ہے۔
کچھ مدت تک میں حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صلوۃ میں مشغول رہا اور قسم قتسم کے درود وصلوۃ بھیجتارہا اور بہت سے دنیاوی فائدے اور نتیجے پاتا رہا اور ولایت خاصہ محمد یہ علی صاحبها الصلوۃ والسلام کے اسرار و دقائق کا مجھ پر فیضان ہوتا رہا۔ کچھ مدت تک اسی طرح کرتا رہا ۔ القاقا اس التزام میں فرق آ گیا اور اس اشتغال کی توفیق نہ رہی۔ صرف صلوۃ موقتہ پر کفایت کی۔ اس وقت بھی یہی اچھا معلوم ہوتا تھا کہ صلوۃ کی بجائے تسبیح وتہلیل و تقدیس میں مشغول رہوں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ شاید اس میں کوئی حکمت ہوگی ۔ دیکھیں کیا ظاہر ہوتا ہے۔ نہیں اللہ تعالی کی عنایت سے معلوم ہوا کہ اس وقت ذکر کرنا صلوۃ و درود بھیجنے سے بہتر ہے۔ درود بھیجنے والے کے لیے بھی اور جس کی طرف درود بھیجا جاتا ہے اس کے لیے بھی دو وجہ سے۔ وجه اول : یہ ہے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ منُ شَغَلَهُ ذِكْرِي عَنْ مَسْتَلَتِي أَعْطَيْتُهُ افْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلین جس کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے روک رکھا تو میں اس کو تمام سائلین سے بڑھ کر دیتا ہوں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ذکر پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے تو اس کا ثواب جس قدرذاکر کو پہنچتا ہے اسی قدر ثواب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو بھی پہنچتا ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے۔ مَنْ سَنَّ سُنَّةٌ فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھا جس شخص نے کسی نیک سنت کو جاری کیا، اس کو اس کا اپنا اجر بھی ملے گا اور اس شخص کا بھی جو اس پر عمل کرے گا۔ اسی طرح جو نیک عمل امتوں سے وجود میں آتا ہے، اس عمل کا اجر جس طرح عامل کو پہنچتا ہے، اسی طرح پیغمبر کو بھی جو اس عمل کا واضع ہے، پہنچتا ہے۔ بغیر اس کے کہ عامل کے اجر کو کچھ کم کریں۔ اس بات کی ضرورت نہیں کہ عمل کرنے والا پیغمبر علیہ السلام کی نیت پر عمل کرے کیونکہ وہ حق تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ عامل کا اس میں کچھ دخل نہیں ۔
ہاں اگر عالم سے پیغمبر علیہ السلام کینیت بھی ظاہر ہو جائے تو عامل کے لیے زیادہ اجر کا باعث ہے اور یہ زیادتی بھی پیغمبر کی طرف عائد ہوگی ۔ ذلك فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظیمِ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل و ے والا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ ذکر سے اصلی مقصود حق تعالیٰ کی یاد ہے اور اس پر اجر کا طلب کرنا اس کا طفیلی اور تابع ہے اور درود میں اصلی مقصد طلب حاجت ہے ۔ شَانَ مَا بَيْنَهُما ( ان دونوں میں بہت فرق ہے ) پس وہ فیض جوڑ کر قلبی کی راہ سے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچتے ہیں ۔ ان برکات سے کئی گنازیادہ ہیں ۔ جو درود کی راہ سے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچتے ہیں۔جانا چاہئے کہ ہرذ کر یہ مرتبہ نہیں رکھتا۔
وہ ذکر جوقبولیت کے لائق ہے، وہی اس زیادتی کے ساتھ مخصوص ہے لیکن جو ذ کر ایسا نہیں درود کو اس پر زیادتی اور فضیلت ہے اور درود سے زیادہ برکتیں حاصل ہونے کی امید ہے۔ ہاں وہ ذکر جو طالب کسی میج کامل مکمل سے اخذ کرتا ہے اور طریقت کے آداب و شرائط کو مد نظر رکھ کر اس پر مداومت کرتا ہے، درود پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ یہ ذکر اس ذکر کا وسیلہ ہے جب تک یہ ذکر نہ ہو، اس ذکر تک نہیں پہنچ سکتے ۔ یہی باعث ہے کہ مشائخ طریقت قدس سرہم مبتدی کے لیے سوائے ذکر کرنے کے اور کچھ جائز نہیں سمجھتے اور اس کے حق میں صرف فرضوں اور سنتوں پر کفایت کرتے ہیں اور امور نافلہ سے منع کرتے ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوا کہ امت میں سے کوئی شخص خواہ وہ کمالات میں کتنا ہی بلند درجہ حاصل کرلے۔ اپنے پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ برابری نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سب کمالات اس کو اس پیغمبر کی شریعت کی متابعت کے باعث حاصل ہوئے ہیں ۔ پس اس پیغمبر کو یہ سب کمالات بھی اور دوسرے تابعداروں کے کمالات بھی اور اپنے مخصوصہ کمالات بھی ثابت و حاصل ہوں گے۔ اسی طرح وہ شخص کامل اپنے پیغمبر کے سوا کسی دوسرے پیغمبر کے مرتبہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
اگر چہ کسی نے اس پیغمبر کی متابعت نہ کی ہو اور اس کی دعوت کو کسی نے قبول نہ کیا ہو کیونکہ ہر ایک پیغمبر اصلی اور مستقل طور پر صاحب دعوت و شریعت کی تبلیغ پر مامور ہے۔ امتوں کا انکار اس کی دعوت و تبلیغ میں قصور پیدا نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ کوئی کمال دعوت وتبلیغ کے مرتبہ تک نہیں پہنچا۔ فَإِنَّ أَحَبَّ عِبَادِ اللَّهِ إِلَى اللهِ مَنْ حَبَّبَ اللهُ إِلَى عِبَادِهِ وَحَبَّبَ عَبَادَ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ الدَّاعِي وَالْمُبَلِّغُ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پیارا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے نزدیک اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پیارا اور محبوب بنائے اور وہ شخص دعوت و تبلیغ کرنے والا ہے۔)
آپ نے سنا ہوگا کہ خبر میں آیا ہے کہ قیامت کے دن علماء کی سیاہی کو فی سبیل اللہ شہیدوں کے خون کے ساتھ وزن کریں گے اور اس سیاہی والا پلہ اس خون والے پلے پر راج اور غالب آ جائے گا ۔ باقی امت کے لوگوں کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی جو کچھ رکھتے ہیں۔ طفیلی اور ضمنی ہے۔ اصل اصل سے ہے اور فرع اصل سے مستنبط ہے۔ اس بیان سے اس امت کے باعیان اور مبلغین کی فضیلت معلوم کرنی چاہئے اگر چہ دعوت وتبلیغ میں بہت سے درجات ہیں اور اعیان و مبلغین اپنے اپنے درجات میں متفاوت ہیں۔
علماء تبلیغ ظاہری کے ساتھ مخصوص ہیں اور صوفیاء باطن کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں اور جو کوئی عالم صوفی ہے، وہ کبریت احمر یعنی اکسیر ہے اور ظاہری وباطنی دعوت وتبلیغ کے لائق ہے اور پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کا تاب وارث ہے اور بعض لوگ اس امت کے محدثین کو جو احادیث نبوی صلى الله عليه وسلم کی تبلیغ کرتے ہیں ، تمام امت سے افضل جانتے ہیں۔ اگر مطلق اور عام طور پر افضل جانتے ہیں تو محل خدشہ ہے اور اگر ظاہری مبلغین کی نسبت کہا ہے تو ہو سکتا ہے کیونکہ مطلق فضیلت اس جامع مبلغ کے لیے ہے جو ظاہری باطنی تبلیغ کرتا ہے یعنی ظاہر میں بھی دعوت کرتا ہے اور باطن میں بھی ۔
اِنَّ فِي الاقْتِصَارِ قَصُوراً يُنَا فِي إِطْلَاقَ الْفَضْلِ فَافُهُمْ فَلا تَكُن مِنَ الْقَاصِرِينَ ) کیونکہ اقتصار میں قصور ہے جو فضل کے اطلاق کرنے کے منافی ہے۔ پس سمجھ اور کوتاہ نظروں میں سے نہ ہو) ہاں ظاہر یقینا عمدہ اور نجات کا مدار اور بڑی برکت والا اور عام نفع والا ہے لیکن اس کا کمال باطن پر موقوف ہے۔ ظاہر بغیر باطن کے نا تمام ہے اور باطن بغیر ظاہر کے نافرجام اور وہ شخص جو باطن کو ظاہر کے ساتھ جمع کرے، کبریت احمر یعنی سرخ گندھک ( کیمیا واکسیر) ہے ۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلَّ شَيءٍ قدیر یا الہ تو ہمارے نو کو پورا کر اور می بخش۔ تو تمام چیزوں پر قادر ہے) وَالسَّلامُ علی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ( سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی۔