0

مکتوب 58: ایک استفسار کے جواب میں جو عالم مثال کی بابت کیا گیا تھا


مکتوب 58

ایک استفسار کے جواب میں جو عالم مثال کی بابت کیا گیا تھا اور ان دو گروہوں کے رد میں جن میں سے ایک گروہ تناسخ کا قائل ہے اور دوسرا نقل روح کا قائل ہے اور کمون و بروز اور اس کے مناسب بیان میں خواجہ محمدتقی کی طرف صادر فرمایا ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّاهِرِينَ آپ کا صحیفہ شریفہ جو از روئے حسن خلق اور بلندی فطرت کے ارسال فرمایا تھا ، پہنچا۔ اس کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے ۔ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے فتوحات مکیہ میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے ۔ إِنَّ الله تَعَالَى خَلَقَ مِائِةَ الْفَ َادَمَ ) کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کیا ہے ) اور عالم مثال کے بعض مشاہدات کے بارہ میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ کعبہ معظمہ کے طواف کے وقت ایسا ظاہر ہوا کہ میرے ہمراہ اس قسم کے لوگوں کی جماعت طواف کر رہی ہے جن کو میں نہیں پہچانتا۔ اثناء طواف میں انہوں نے دو عربی بہت پڑھے جن میں سے ایک یہ ہے۔ بیت

لَقَدْ طُغْنَا كَمَا طُفْتُمُ سِنِيئًا
بِهَذَا الْبَيْتِ طُرًّا أَجْمَعِيْنَا

ترجمہ: طواف ہم نے بھی اس کا گھر کا ہے کیا ویسا
بہت سے سالوں تلک تم نے ہے کیا جیسا

میں نے جب یہ بیت سنا، دل میں گزرا کہ یہ سب عالم مثال کے بدن ہیں۔ یہ بات میرے دل میں گزرنے نہ پائی تھی کہ ان میں سے ایک نے میری طرف نگاہ کی اور کہا کہ میں تیرے اجداد میں سے ہوں۔ میں نے پوچھا کہ تجھے فوت ہوئے کتنے سال ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ مجھے فوت ہوئے چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے۔ میں نے تعجب سے کہا کہ حضرت ابوالبشر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے لے کر آج تک سات ہزار سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس نے فرمایا کہ تو کس آدم کا ذکر کرتا ہے۔ کیا تو اس آدم کا ذکر کرتا ہے جو اس سات ہزار سال کے دورہ کے اول میں پیدا ہوا ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ اس وقت وہ حدیث جو او پر لکھی جاچکی ہے دل میں گزری جو اس قول کی تائید کرتی ہے۔

میرے مخدوم مکرم اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کی عنایت سے جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ سب آدم جو حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود سے پہلے گزرے ہیں، ان کا وجود عالم مثال میں ہوا ہے نہ عالم شہادت میں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہی ہیں جو عالم شہادت میں موجود ہوئے ہیں اور زمین میں خلافت پا کر مسجود ملائک ہوئے ہیں۔


حاصل کلام یہ کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ جامعیت کی صفت پر مخلوق ہوئے ہیں۔ اپنی حقیقت میں بہت سے لطائف اور اوصاف رکھتے ہیں۔ ان کے وجود سے بے شمار قرن پہلے ہر وقت ان کی صفات میں سے کوئی صفت یا ان کے لطائف میں سے کوئی لطیفہ حق تعالٰی کی ایجاد سے عالم مثال میں موجود ہوا ہے اور آدم کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور اس کے نام کا مسمی ہوا ہے اور منتظر آدم کے کاروبار اس سے وقوع میں آئے ہیں حتی کہ توالد و تناسل بھی جو اس عالم مثال

کے مناسب ہے، ظاہر ہوا ہے اور اس عالم کے مناسب ظاہری ، باطنی کمالات بھی حاصل ہوئے ہیں اور ثواب و عذاب کا مستحق ہو کر بلکہ اس کے حق میں قیامت قائم ہو کر بہشتی بہشت میں اوردوزخی دوزخ میں گئے ہیں۔ بعد ازاں پھر کسی وقت اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے کوئی صفت یا لطیفہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام کا اس عالم میں ظاہر ہوا اور وہ کاروبار جو ظہور اول سے وجود میں آئے تھے ، ظہور ثانی سے بھی وہی کاروبار ظاہر ہوئے۔ جب یہ دورہ بھی تمام ہو گیا۔ صفات ولطائف کا تیسر اظہور حاصل ہوا۔ جب اس ظہور نے بھی اپنا دورہ ختم کیا، چوتھا ظہور ثابت ہوا ۔ الي ماشا اللہ جب ان کے مثالیہ ظہورات کے دورے جو ان کے لطائف وصفات کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ، تمام ہو گئے ۔ آخر کار و نسخہ جامعہ عالم شہادت میں حق تعالیٰ کی ایجاد سے وجود میں آیا اور فضل خداوندی سے معزز و مکرم ہوا۔ اگر لاکھ آدم بھی ہوں ، سب اس آدم کے اجزاء اور اس کے ہاتھ پاؤں اور اس کے وجود کےمبادی و مقدمات ہیں ۔


شیخ بزرگوار کا جد جس کو فوت ہوئے چالیس ہزار سال گزرے ہیں، عالم مثال میں شیخ کے اس جد کے لطائف میں سے ایک لطیفہ تھا جو عالم شہادت میں وجود رکھتا تھا اور یہ بیت اللہ کا طواف جو اس نے کیا ہے، عالم مثال میں طواف کیا ہے کیونکہ کعبہ معظمہ کی بھی عالم مثال میں صورت و شبیہ ہے جو اس عالم والوں کا قبلہ ہے۔ اس فقیر نے اس بارہ میں بہت دور تک نظر دوڑائی ہے اور بڑا غور کیا ہے لیکن عالم شہادت میں دوسرا آدم کوئی نظر نہیں آیا اور عالم مثال کے شعبدوں کے سوا کچھ نہ پایا اور یہ جو بدن مثالی نے کہا ہے کہ میں تیرا جد ہوں اور مجھے فوت ہوئے چالیس ہزار سال سے زیادہ گزرے ہیں۔

اس بات پر پختہ دلیل ہے کہ پہلے آدم اس آدم کے صفات ولطائف کے ظہورات تھے نہ یہ که علیحدہ خلقت رکھتے تھے اور اس آدم کے برخلاف اور الگ تھے کیونکہ مخالفت اور مبائن کو اس آدم سے کیا نسبت اور کیونکر جد ہو سکتے حالانکہ اس آدم کی پیدائش کو ابھی سات ہزار سال تمام نہیں ہوئے ۔ پھر چالیس ہزار سال کی کہاں گنجائش ہے۔ وہ لوگ جن کے دل بیمار ہیں ، ان حکایات سے تاریخ سمجھتے ہیں اور عجب نہیں کہ قدم عالم کے قائل ہو جائیں اور قیامت کبری کا انکار کر دیں۔ بعض محمد لوگ جو باطل کے ساتھ یعنی جھوٹ موٹ میٹنی کی مسند پر بیٹھے ہیں۔ تاریخ کے جواز کا حکم دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ نفس جب تک حد کمال تک نہ پہنچے بدنوں کے تقلب یعنی بدلنے سے اس کو چارہ نہیں اور کہتے ہیں کہ جب نفس حد کمال تک پہنچ جائے بدنوں کی تبدیلی بلکہ بدنوں کے متعلق سے فارغ ہو جاتا ہے اور اس کی پیدائش سے مقصود یہی اس کا کمال ہے جو میسر ہو گیا۔ یہ بات صریح کفر ہے اور ان تمام باتوں کا انکار ہے جو دین میں تو اتر کے ساتھ ثابت ہیں کیونکہ آخر کار جب تمام نفوس حد کمال کو پہنچ جائیں ، پھر دوزخ کس کے لیے ہوگی او عذاب کس کو ہوگا۔ اس میں دوزخ اور آخرت کے عذاب اور جسموں کے ساتھ اٹھنے کا انکار ہے کیونکہ ان کے خیال میں نفس کو اب جسم کی جو اس کے کمال کا آلہ ہے، کوئی حاجت نہیں رہی تاکہ جسم کے، ساتھ اٹھایا جائے ۔

ان لوگوں کا اعتقاد بعینہ فلاسفہ کے اعتقاد کے مطابق ہے جو شر اجساد سے انکار کرتے ۔۔ اور عذاب و ثواب روحانی جانتے ہیں بلکہ ان کا اعتقاد فلاسفہ کے اعتقاد سے بھی بد ترب کیونکہ آتا ہے کو رد کرتے ہیں اور روحانی عذاب و ثواب ثابت کرتے ہیں اور یہ لوگ تناسخ کو بھی ثابت کرے ہیں اور عذاب آخرت سے بھی انکار کرتے ہیں۔ عذاب ان کے نزدیک دنیا ہی کا عذاب ہے جو نفوس کی تہذیب کے لیے ثابت کرتے ہیں۔

سوال: حضرت امیر کرم اللہ وجہہ اور بعض اور اولیاء اللہ سے بھی منقول ہے کہ ان کے وجود خاکی سے بہت زمانہ پہلے ان سے عجیب و غریب اعمال و افعال عالم شہادت میں واقع ہوئے ہیں ، تناسخ کے جواز کے بغیر یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے۔

جواب: وہ اعمال وافعال ان بزرگواروں کے ارواح سے صادر ہوئے ہیں جوحق تعالٰی کے ارادہ سے خود اجساد کے ساتھ متحد ہو کر عجیب و غریب افعال کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ کوئی اور جسد نہیں جس کے ساتھ ان کا تعلق ہو۔ ناسخ کے یہ معنی ہیں کہ روح کا اس جسد کے تعلق سے پہلے کسی اور جسد کے ساتھ جو اس جسد کے مخالف اور مغائر ہے تعلق ہوا ہوا رجب خود ہی جسد کے ساتھ متجسد ہو جائے پھر تناسخ کہاں ہوگا۔ جن جو مختلف شکلیں بن جاتے ہیں اور مختلف جسدوں میں متجسد ہو جاتے ہیں ، اس وقت ان سے اعمال عجیبہ جوان شکلوں اور جسدوں کے مناسب ہیں ، ظہور میں آتے ہیں۔ ان میں کوئی تناسخ اور حلول نہیں ۔

جب جنوں کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اس قسم کی طاقت حاصل ہے کہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہو کر عجیب و غریب کام کریں تو اگر کاملین کی ارواح کو یہ طاقت بخش دیں تو کونسی تعجب کی بات ہے اور دوسرے بدن کو ان کی کیا حاجت ہے۔ اسی قسم کی ہیں وہ بعض حکایتیں جو بعض اولیاء اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک ساعت میں مختلف مکانوں میں حاضر ہوتے ہیں اور مختلف کام ان سے وقوع میں آتے ہیں ۔ یہاں محتمل ان نے مالف مختلف بسدار، میں مجھے ہو کر اور مختلف شکلوں میں متشکل ہو جاتے ہیں ۔ اس طی ان میں وطن رکھتا ہے اور کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں نکلا۔ بعض لوگ عظیم البرکت مکہ معظمہ سے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس عزیز کو حرم کعبہ میں دیکھا ہے اور ہمارے اور اس عزیز کے درمیان ایسی ایسی باتیں ہوئی ہیں۔ بعض نقل کرتے ہیں کہ ہم نے اس کو روم میں دیکھا ہے اور بعض بغداد میں دیکھ کر آئے ہیں ۔ یہ سب اس عزیز کے لطائف ہیں جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے ہیں اور اس عزیز کو ان شکلوں کی نسبت اطلاع نہیں ہوتی۔ اسی واسطے لوگوں کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ سب مجھ پر تہمت ہے۔ میں اپنے گھر سے باہر نہیں گیا نہ میں نے حرم کعبہ دیکھا ہے اور میں روم، بغداد کو نہیں جانتا اور نہیں پہچانتا کہ تم کون ہو۔ اسی طرح حاجت مند لوگ زندہ اور مردہ بزرگوں سے خوف و ہلاکت کے وقت مددطلب کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوں کی صورتوں نے حاضر ہو کر ان کی بلا کو دفع کیا ہے اور ان بزرگوں کو اس بلیہ کے دفع کرنے کی اطلاع بھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔

از ما و شما بهانه ساخته اند
ترجمہ
: ہمارا اور تمہارا ہے بہانہ
یہ بھی ان بزرگوں کے لطائف کی شکلیں ہیں۔ یہ شکلیں کبھی عالم شہادت میں ہوتی ہیں۔ کبھی عالم مثال میں جس طرح ایک ہی رات میں ہزار آدمی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو خواب میں مختلف صورتوں میں دیکھتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں۔ یہ سب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی صفات و لطائف کی مثالی صورتیں ہیں ۔ اسی طرح مرید اپنے پیروں کی مثالی صورتوں سے استفادہ کرتے ہیں اور مشکلات کو حل کرتے ہیں۔


کمون و بروز جو بعض مشائخ نے کہا ہے کہ تناسخ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا کیونکہ تاریخ میں نفس کا دوسرے بدن کے ساتھ اس غرض کے لیے تعلق ہوتا ہے تا کہ اس کے لیے حیات و زندگی ثابت ہو اور اس کو حس و حرکت حاصل ہو اور بروز میں نفس کا دوسرے بدن کے ساتھ تعلق اس غرض کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس بدن کو کمالات حاصل ہوں اور اپنے درجات تک واصل ہو جائے جس طرح کہ جن انسان کے ساتھ تعلق پیدا کر لے اور اس کے وجود میں بروز کرے۔ یہ تعلق بھی انسان کی زندگی کے واسطے نہیں ہے کیونکہ آدمی اس تعلق سے پہلے حس و حرکت والا ہے۔ وہ چیز جو اس تعلق سے اس میں پیدا ہوگئی ہے، وہ اس جن کے صفات و حرکات وسکنات کا ظہور ہے لیکن مشائخ مستقیمتہ الاحوال کمون و بروز کا ہرگز بیان نہیں کرتے اور ناقصوں کو بلاؤ فتنہمیں نہیں ڈالتے ۔


فقیر کے نزدیک کمون و بروز کی کچھ ضرورت نہیں۔ کامل اگر کسی ناقص کی تربیت کرنا چاہے تو بغیر اس بات کے کہ اس میں بروز کرے۔ اللہ تعالیٰ کے اقتدار سے اپنی صفات کا مالہ کومرید ناقص میں منعکس کر دیتا ہے اور توجہ والتفات کے ساتھ اس انعکاس کو ثابت و برقرار رکھتا ہے تا کہ مرید ناقص نقص سے کمال تک آ جائے اور صفات رذیلہ کو چھوڑ کر صفات حمیدہ کو اختیار کرے اور بیٹھ کمون و بروز درمیان نہ ہو۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظيم يا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ بعض لوگ نقل ارواح کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ روح کو کمال کے بعد اس قسم کی قدرت
حاصل ہو جاتی ہے کہ اپنے بدن کو چھوڑ کر دوسرے بدن میں داخل ہوسکتا ہے۔ نقل کرتے ہیں کہ ایک بزرگ میں یہ کمال اور قدرت تھی کہ اس کے پڑوس میں ایک جوان مر گیا۔ اس بزرگ نے اپنے بدن کو جو بڑھاپے تک پہنچ چکا تھا، چھوڑ دیا اور اس جوان کے بدن میں داخل ہو گیا حتی کہ بدن اذل مردہ ہو گیا اور دوسرا بدن زندہ۔ اس بات سے تاریخ لازم آتا ہے کیونکہ بدن ثانی کا تعلق اس بدن کی حیات کے لیے ہے۔

ہاں اس قدر فرق ہے کہ تناسخ کے قائل لوگ نفس کے نقص کا حکم کرتے ہیں اور تناسخ کو نفس کی تکمیل کے لیے ثابت کرتے ہیں اور وہ لوگ جو نقل روح کے قائل ہیں، روح کو کامل خیال کرتے ہیں اور کمال روح کے بعد نقل کو ثابت کرتے ہیں ۔ فقیر کے نزدیک نقل روح کا قول تناسخ کے قول سے بھی گیا گزرا ہے کیونکہ تناسخ کا نفس کی تکمیل کے لیے اعتبار کرتے ہیں۔ اگر چہ یہ اعتبار باطل ہے اور نقل روح کمال کے حاصل ہونے کے بعد خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ کچھ کمال نہیں ۔ جب بدنوں کا تبدل کمالات کے حاصل ہونے کے لیے مقرر کیا ہو تو پھر کمال حاصل ہونے کے بعد دوسرے بدن میں نقل کرنا کس لیے ہے ۔

اہل کمال تماشائی نہیں ہیں۔ ان کا مقصود کمال کے حاصل ہونے کے بعد بدنوں سے الگ ہونا ہے نہ کہ بدنوں کے ساتھ تعلق اختیار کرنا کیونکہ بدنوں کے تعلق سے جو کچھ مقصود تھا، وہ حاصل ہو چکا ہے۔ نیز نقل روح میں بدن اول کا مارنا اور دوسرے بدن کا زندہ کرنا ہے۔ پس بدل اول کو احکام برزخ کے حاصل ہونے سے چارہ نہیں اور قبر کے عذاب وثواب سے خلاصی نہیں اور دوسرے بدن کے لیے جب دوسری حیات ثابت کرتے ہیں۔ اس کے لیے گویا دنیا میں حشر ثابت ہو گیا یا شاید نقل روح کا قائل قبر کے عذاب و ثواب کا قائل نہیں اور حشر و نشر کا معتقد نہیں ۔ افسوس صد افسوس اس قسم کے مکار اور جھوٹے لوگ شیخی کی مسند پر بیٹھے ہیں اور اہل اسلام کے مقتدا بنے ہوئے ہیں ۔ ضَلُّوا فَأَضَلُّوا یہ لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور وں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں ۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الوهاب ( یا الہ تو ہدایت دے کر پھر ہمارے دلوں کو ٹیڑ ھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما تو سب کچھ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔ بحُرُمَةِ سَيِّدِ الْمُرْسَلَيْنَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ الصَّلَوةُ وَالتَّسْلِيْمَاتُ.


تذبيل


بعض ان علوم و معارف کے بیان میں جو عالم مثال سے تعلق رکھتے ہیں واضح ہو کہ عالم مثال تمام عالموں سے زیادہ فراخ ہے جو کچھ تمام عالموں میں ہے، اس کی صورت عالم مثال میں ہے۔ معقولات و معانی سب وہاں صورت رکھتے ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ کے لیے مثل نہیں لیکن مثال ہے۔

واللهِ الْمَثَلُ الاغلى مثال الی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس فقیر نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ تنزیہ محض کے مرتبہ میں جس طرح مثل نہیں۔ مثال بھی نہیں ۔ فَلا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الامثال ( اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مثال نہ بیان کرو ) عالم صغیر میں عالم مثال کا نمونہ خیال ہے کیونکہ تمام اشیاء کی صورت خیال میں متصور ہے۔ خیال ہی سالک کے احوال و مقامات کی کیفیات کو مختلف صورتوں میں سالک کے سامنے ظاہر کرتا ہے اور صاحب علم بنادیتا ہے اور اگر خیال نہ ہو یا جس جگہ خیال پہنچ نہ سکتا ہو وہاں جہل لازم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مرتبہ ظلال کے او پر جہل و حیرت ہے کیونکہ خیالی کی دوڑ مراتب ظلال تک ہی ہے جہاں حل نہیں خیال کی بھی وہاں گنجائش نہیں ۔ جب صورت تز یہی عالم مثال میں نہیں آسکتی جیسے کہ گزر چکا ہے تو خیال میں جو مثال کا پرتو ہے، صورت تنزیہی کس طرح متصور ہو سکتی ہے۔ فَلَا جَرَمَ لَا يَكُونَ ثَمَّهُ إِلَّا الْجَهْل وَالْحَيْرَةُ ( پس وہاں جہل و حیرت کے سوا کچھ نہ ہو گا ) اور جہاں علم نہیں وہاں گفتگو بھی نہیں ۔

مَنْ عَرَفَ الله كُلَّ لِسَانُهُ ( جس نے اللہ تعالی کو پہچانا اس کی زبان گنگ ہوگئی ۔ ) اس کا نشان ہے اور جہاں علم ہے وہاں گفتگو بھی ہے ۔ مَنْ عَرَفَ اللَّهُ طَالَ لِسَانُهُ (جس نے اللہ تعالی کو پہچانتا اس کی زبان دراز ہوگی ) اس کا بیان ہے۔ پس زبان کی درازی طلال ہوتی ہے


اور زبان کی گنگی مراتب ظلال سے اوپر ہوتی ہے۔ خواہ فعل ہو یا صفت ۔ اسم ہو یا سمئی ۔ پس جو کچھ خیالات کا اپنا بنایا ہوا ہے۔ چونکہ وہ ظلال سے ہے، اس لئے وہ معلول اور جعلی طور سے بنایا ہوا ہے لیکن چونکہ مطلوب کے علامات و آثار سے ہے،اس لیے علم الیقین کا فائدہ دیتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ عین الیقین اور حق الیقین ظلال و خیال سے وراء الوراء ہیں ۔ خیال کی لخت یعنی تراش سے تب نجات ملتی ہے جب کہ سیر انفسی کو بھی سیر آفاقی کی طرح پیچھے چھوڑ دیں اردو آفاق و انفس سے آگے جولان کریں۔ یہ بات اکثر اولیاء اللہ کو مرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جب تک زندہ رہتے ہیں ، خیال ان کا دامن گیر رہتا ہے اور بزرگواران اوایا ، میں سے بہت کم لوگوں کو یہ دولت اس جہان میں بھی میسر ہو جاتی ہے اور باوجودد نیادی حیات کے خیال کے تصرف سے نکل جاتے ہیں اور مطلوب کو خیال کی تراش اور ایجاد کے بغیر پالیتے ہیں۔ اس وقت تجلی ذاتی برقی ان بزرگواروں کے حق میں دائمی ہو جاتی ہے اور وصل عریانی پرتو ڈالتا ہے۔ شعر هَنِيئًا لَأَرْبَابِ النَّعِيمِ نَعِيْمُهَا وَلِلعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرَّعُ ترجمہ: مبارک معموں کو اپنی نعمت مبارک عاشقوں کو در دو کلفت

سوال : بعض لوگ واقعات و منامات میں اور مثال و خیال میں دیکھتے ہیں کہ ہم بادشاہ بن گئے ہیں اور اپنے نوکروں چاکروں کو دیکھتے ہیں اور نیز یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم قطب بن گئے ہیں اور تمام جہان ہماری طرف متوجہ ہے اور بیداری اور افاقہ کے وقت میں جو عالم شہادت ہے، ان کمالات کا کچھ ظہور نہیں ہوتا۔ یہ رویت کچی ہے یا جھوٹی ؟

جواب : یہ روایت کچھ نہ کچھ صدق رکھتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ بادشاہ اور قطب بننے کے معنی اور استعداد ان لوگوں میں پائی جاتی ہے لیکن ضعیف ہے اس لائق نہیں کہ عالم شہادت میں ظہور پائے ۔ بعد ازاں یہ امر د و حال سے خالی نہیں۔ اگر یہ معنی اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بادشاہ اور قطب وقت بن جائیں۔ اگر اس معنی نے اس قد رقوت نہ پائی کہ عالم شہادت میں ظاہر ہوں تو وہی مثالی ظہور جو تمام ظہورات میں سے کمزور اور ضعیف ہے، کفایت کرتا ہے اور قوت کے بموجب ظہور پاتا ہے۔


اس قسم کے ہیں وہ واقعات جو اس راہ کے طالب دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو مقامات عالیہ میں پاتے ہیں اور اپنے آپ کو ارباب ولایت کے مرتبوں سے سرفراز ہوا پاتے ہیں۔ اگر یہ معنی عالم شہادت میں ظہور پیدا کریں تو بڑی اعلیٰ دولت ہے اور اگر ظہور مثالی پر ہی کفایت کریں تو لا حاصل ہے اور جائے مصیبت ہے۔ ہر جلا رہا اور حجام خواب میں اپنے آپ کو بادشاہ دیکھتا ہے لیکن کچھ حاصل نہیں اور سوائے خسارہ کے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا ۔ پس واقعات پر اعتبار نہ کرنا چاہئے ۔ عالم شہادت میں جو کچھ حاصل ہو جائے ، اس کو اپنا سمجھنا چاہئے ۔ بیت

چو غلام آفتابم همه از آفتاب گویم
نہ شہم نہ شب پر ستم که حدیث خواب گویم

ترجمہ بیاں سورج کا کرتا ہوں کہ ہوں میں بس غلام اس کا
نہیں بندہ میں شب کا تا کروں خوابوں کا کچھ چر پھا

یہی وجہ ہے کہ مشائخ نقشبند یہ قدس سرہم واقعات کا اعتبار نہیں کرتے اور طالبوں کے واقعات کی تعبیر کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ اس میں کچھ فائدہ نہیں ۔ معتبر وہی ہے جو افاقہ اور بیداری میں حاصل ہو ۔ اسی واسطے دوام شہود کا اعتبار کرتے ہیں اور دائمی حضور کو اعلیٰ دولت سمجھتے ، ہیں ۔ وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو اور ان بزرگواروں کے نزدیک معتبر نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نسان ما سوا ان کے حق میں دائی ہے اور کسی وقت بھی ان کے دل پر غیر کا گزر نہیں ہوتا۔ ہاں جس شخص کی ہدایت میں نہایت مندرج ہو ۔ اس سے ان کمالات کا ظہور بعید اور عجیب نہیں ہے ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ یارب ہمارے گناہوں اور ہمارے کاموں میں ہماری زیادتی کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافروں پر ہمیں مداد ہے۔ والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا