2

مکتوب 59: اس بیان میں کہ آدمی کو تین چیزوں سے چارہ نہیں تا کہ نجات ابدی حاصل ہو جائے اور اس بیان میں کہ اہل سنت و جماعت کی تابعداری کے سوانجات محال ہے


مکتوب 59

سید محمود کی طرف صادر فرمایا ہے۔ اس بیان میں کہ آدمی کو تین چیزوں سے چارہ نہیں تا کہ نجات ابدی حاصل ہو جائے اور اس بیان میں کہ اہل سُنت و جماعت کی تابعداری کے سوانجات محال ہے اور اس بیان میں کہ علم و عمل شریعت سے حاصل ہوتے ہیں اور اخلاص طریق صوفیہ پر چلنے سے وابستہ ہے اور اس بیان میں کہ عمل کا اخلاص اولیاء کو تمام افعال اور اعمال اور حرکات و سکنات میں حاصل ہے۔

حق تعالی شریعت مصطفوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے سیدھے راستہ پر استقامت فرما کر پورے طور پر اپنی بارگاہ میں گرفتار کر لے۔


آپ کا شریعت اور لطیف محبت نامہ صادر ہو کر خوشی کا باعث ہوا۔ فقراء کے ساتھ آپ کی محبت اور اخلاص کا حال معلوم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اس کو اور زیادہ کرے۔ آپ نے فوائد طلب کئے تھے۔ میرے مخدوم! آدمی کو تین چیزوں سے چارہ نہیں ہے تا کہ نجات ابدی حاصل ہو جائے۔ علم عمل و اخلاص۔

علم دو قسم ہے ایک وہ علم ہے جس سے مقصود عمل ہے جس کا متلفل علم فقہ ہے۔

دوسرا علم وہ ہے جس سے مقصود صرف اعتقاد اور دل کا یقین ہے جو علم کلام میں مفصل مذکور ہے اور فرقہ ناجیہ اہلسنت والجماعت کے قیاس صحیح اور عقیدے کے موافق ہے۔ نجات ان بزرگواروں کی اتباع کے بغیر محال ہے اور اگر بال بھر بھی مخالفت ہے تو کمال خطرہ ہے ۔ یہ بات کشفِ صحیح اور الہامِ صریح ہے یقینی طور پر حاصل ہو چکی ہے اس میں کچھ خلاف نہیں ہے ۔

پس خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس کو ان کی متابعت کی توفیق حاصل ہوئی اور ان کی تقلید سے مشرف ہوا اور ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے ان کی مخالفت کی اور ان سے الگ ہو گیا اور ان کے اصول سے منہ پھیرا اور ان کے گروہ سے نکل گیا۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوا اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا پس رؤیت اور شفاعت کا منکر ہوا اور صحبت کی فضیلت اور صحابہ کی بزرگی اس سے مخفی رہی اور اہل بیت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور اولاد بتول رضی اللہ عنہا کی محبت سے محروم رہا اور وہ اس بڑی نیکی سے رک گیا جو اہلِ سُنت و جماعت نے حاصل کی۔


تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان میں سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ جو اصحاب کے حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد لوگ بہت بیقرار ہو گئے ۔ پس ان کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی شخص آسمان کے سایہ تلے نہ ملا۔ پس انہوں نے ان کو اپنا والی بنالیا۔ یہ صریح دلالت ہے اس بات پر کہ تمام صحابہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے افضل ہونے میں متفق ہیں اور ان کے افضل ہونے میں یہ اجماع صدر اوّل میں ہوا اور یہ اجماع قطعی ہے جس میں انکار کو دخل نہیں ہے اور اہل بیت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی مثال کشتی نوح علیہ السلام کی طرح ہے جو اس پر سوار ہوا بچ گیا اور جو اس سے پیچھے ہٹا رہاوہ ہلاک ہو گیا۔

،بعض عارفوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اصحاب کو ستاروں کی مانند فرمایا بالنجم هم يَهْتَدُونَ، اور اہل بیت کو کشتی نوح کی طرح ۔ اس میں اشارہ ہے کہ کشتی کے سوار کیلئے ستاروں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تا کہ وہ ہلاک ہونے سے بچ جائے اور ستاروں کی رعایت کے بغیر نجات بالکل محال ہے اور اس بات کو اچھی طرح معلوم کریں کہ بعض کا انکار کرنا سب کے انکار کو مستلزم ہے کیونکہ حضرت خیر البشر صلى الله عليه وسلم کی صحبت کی فضیلت میں سب صحابہ رضی اللہ عنہم مشترک ہیں اور صحبت کی فضیلت تمام فضیلتوں اور کمالوں سے بڑھ کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ جو تمام تابعین میں سے اچھے ہیں۔ ایک ادنٰی صحابی کے درجے کو نہیں پہنچے ہیں۔ پس صحبت کی فضیلت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی ہوگی۔ کیونکہ ان کا ایمان صحبت اور نزول وحی کی برکت سے شہودی ہو گیا تھا اور صحابہ کے بعد کسی کو اس درجہ کا ایمان نصیب نہیں ہوا اور اعمال ایمان پر مترتب ہوتے ہیں

اور کمال ایمان کے کمال کے موافق حاصل ہوتا ہے اور جو کچھ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے واقع ہوتے ہیں۔ سب بہتر حکمتوں اور نیک گمانوں پر محمول ہیں۔ وہ حرص و ہوا اور جہالت سے نہ تھے بلکہ وہ اجتہاد اور علم کی رو سے تھے اور اگر ان میں سے کسی نے اجتہاد میں خطا کی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک خطا کار کے لئے بھی ایک درجہ ہے اور یہی افراط و تفریط کے درمیان سیدھا راستہ ہے جس کو اہلِ سُنت و جماعت نے اختیار کیا ہے اور یہی بچاؤ والا اور مضبوط رستہ ہے۔ غرض علم و عمل دونوں شریعت سے حاصل ہوتے ہیں اور اخلاص کا حاصل ہونا جوعلم وعمل کیلئے روح کی طرح ہے۔ طریق صوفیہ پر چلنے پر منحصر ہے جب تک سیر الی اللہ نہ قطع کریں اور سیر فی اللہ کے ساتھ متحقق نہ ہو جائیں حقیقت اخلاص سے دور اور مخلصوں کے کمالات سے مہجور رہتے ہیں ۔ اگر چہ عام مومنین کو بھی تکلف اور تعمل کے ساتھ بعض اعمال میں مجمل طور پر اخلاص حاصل ہو جاتا ہے مگر وہ اخلاص جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں وہ ہے جو تمام اقوال و افعال اور حرکات و سکنات میں حاصل ہے اور اس میں کسی تکلف اور بناوٹ کو راہ نہیں ہے۔ یہ اخلاص انفسی اور آفاقی معبودوں کے فنا پر منحصر ہے جوفنا و بقاء اور ولایت خاصہ کے درجے تک پہنچنے سے وابستہ ہے جو اخلاص تکلف اور بناوٹ کا محتاج ہے وہ ہمیشہ نہیں رہتا۔ اخلاص کا دوامی طور پر حاصل ہونا جو مرتبہ حق الیقین میں ہے۔ اس میں بے تکلف ہونا ضروری ہے۔ پس اولیاء اللہ جو کچھ کرتے ہیں خدا کے لئے کرتے ہیں نہ اپنے نفس کے لئے کیونکہ ان کے نفس خدا پر قربان ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے اخلاص کے حاصل ہونے میں نبیت کا صحیح کرنا ضروری نہیں ہے ان کی نیت فنافی اللہ اور بقا باللہ سے درست ہو چکی ہے مثلاً کوئی شخص جو اپنے نفس میں گرفتار ہے وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کے لئے کرتا ہے خواہ نیت کرے یا نہ کرے اور جب نفس کی قید دور ہو کر خدائے تعالیٰ کی قید حاصل ہو جائے تو اس صورت میں وہ جو کچھ کرے گا خدا کے لئے کرے گا خواہ نیت کرے یا نہ کرے۔ نیت باطنی امر میں درکار ہے یقینی میں اس کی حاجت نہیں ہے۔ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ اللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ، یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

دوامی اخلاص والا مخلص بفتح لام ہے اور جس کو دوام حاصل نہیں ہے اور ابھی اخلاص کا کسب کرتا ہے۔ مخلص بکسر لام ہے اور ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے اور طریق صوفیہ سے علم وعمل میں جو نفع حاصل ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ علوم کلامیہ استدلالیہ کشفی ہو جاتے ہیں اور اعمال کے ادا کرنے میں بڑی آسانی حاصل ہو جاتی ہے اور جو سستی شیطان اور نفس کی طرف سے واقع ہوتی ہے، دور ہو جاتی ہے۔

این کار دولت است کنوں تا کرا دهند
ترجمہ
: بڑی اعلیٰ ہے یہ دولت ملے اب دیکھئے کس کو

والسلام اول وآخراً

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا