0

مکتوب 60: اس بیان میں کہ فضولیات سے عنان پھیر کر ضروریات دین میں مشغول ہونا چاہئے


مکتوب 60

اس بیان میں کہ فضولیات سے عنان پھیر کر ضروریات دین میں مشغول ہونا چاہئے۔ محمد تقی کی طرف اس کے خط کے جواب میں لکھا ہے ۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطفیٰ (اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )

آپ کے صحیفہ شریف کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی حقیقت میں دو صدر اول یعنی خیر القرون کے معتبر اجماع سے ثابت ہے اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی افضلیت کے بارہ میں جو ان کی خلافت کی ترتیب پر مترتب ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کی لڑائی جھگڑوں میں خاموشی اختیار کرنے کے باب میں جو جود لائل آپ نے لکھے ہیں، ان کو پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوئی ۔ بحث امامت میں یہی اعتقاد کافی ہے اور اہل سنت و جماعت شکر اللہ مقیم کے موافق ہے۔


اے شفقت کے نشان والے مخدوم، امامت کی بحث دین کے فروغ میں سے ہے۔ نہ شریعت کے اصول سے ۔ ضروریات دینی اور میں جو اعتقاد وعمل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا متکفل علم کلام اور علم فقہ ہے۔ ضروریات کو چھوڑ کر فضولیات میں مشغول ہونا اپنی عمرکو بیہودہ باتوں میں صرف کرنا ہے اور اعراض کی علامت میں آیا ہے کہ علامَةُ إِعْرَاضِهِ تَعَالَى مِنَ الْعَبْدِ اشْتِغَالُهُ بما لا يغنيه بندہ کا بیہودہ باتوں میں مشغول ہونا بندہ کی طرف سے حق تعالیٰ کے منہ پھیرنے کی علامت ہے۔

اگر امامت کی بحث دین کی ضروریات اور شریعت کے اصول سے ہوتی جیسے کہ شیعہ نے گمان کیا ہے تو چاہے تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مجید میں استخلاف کا تعین فرما کرخلیفہ کی تشخیص فرماتا اور حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام بھی کسی ایک کی خلافت کا امر فرما جاتے اور تنصیص اور تصریح کے طور پر ایک کو خلیفہ کرتے جب کتاب و سنت میں اس امر کا اہتمام مفہوم نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ امامت کی بحث دین کے فضول سے ہے نہ کہ دین کے اصول ہے ۔ وہ شخص فضول ہی ہوگا جو اس قسم کی فضول باتوں میں مشغول ہوگا۔ دین کی ضروریات اس قدر در پیش ہیں کہ فضول تک نوبت ہی نہیں پہنچتی۔


اول اس اعتقاد کا درست کرنا ضروری ہے۔ جو حق تعالیٰ کی ذات وصفات و افعال سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اعتقاد کرنا چاہئے کہ جو کچھ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام حق تعالی کی طرف سے لائے ہیں اور ضرورت و تواتر کے طور پر دین سے معلوم ہوا ہے یعنی حشر ونشر و آخرت کا دائمی عذاب و ثواب اور سب سنی سنائی باتیں حق ہیں۔ ان میں خلاف کا احتمال نہیں۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو گا نجات بھی نہ ہوگی۔

دوسرے احکام فقہیہ یعنی فرض و وا جب وسنت و مستحب وغیرہ کا بجالانا ضروری ہے۔ شرعی حل و حرمت کو اچھی طرح مد نظر رکھنا چاہئے اور حدود شرعی میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے تا کہ آخرت کے عذاب سے نجات و فلاح حاصل ہو سکے۔ جب یہ اعتقاد و عمل درست ہو جائیں پھر طریق صوفیاء کی نوبت آتی ہے اور کمالات ولایت کے امیدوار ہو جاتے ہیں۔ امامت کی بحث ضروریات دین کے مقابلہ میں کالمطروح فی الطریق یعنی راستہ میں پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہے۔ چونکہ مخالفوں نے اس بارہ میں بڑا غلو و مبالغہ کیا ہوا ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب پر زبان طعن دراز کی ہے۔ اس لیے ان کے رد میں طول طویل مقدمات لکھے جاتے ہیں کیونکہ دین متین سے فساد کو رفع کرنا بھی دین کی ضروریات سے ہے۔ والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا