مکتوب 68
ایک محتاج کی سفارش میں خانِ خاناں کی طرف لکھا ہے :-
اس بیان میں کہ تواضع دولت مندوں سے اچھی ہے اور استغنا و لاپروائی فقراء سے زیبا ہے اور اس کے مناسب بیان میں خانِ خاناں کی طرف لکھا ہے۔
الْخَيْرُفِى مَا صَنَعَ اللهُ تَعَالیٰ بہتر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کرے۔ میرے مخدوم!
من آنچه شرط بلاغ است با تو میگوئم
تو خواه از بخنم پند گیر و خواه ملال
ترجمہ: جو حق کہنے کا ہے کہتا ہوں تجھ سے اے میرے شفیق
نصیحت آئے ان باتوں سے تجھ کو یا ملال آئے
تواضع دولتمندوں سے اچھی ہے اور استغنا فقراء سے کیونکہ معالجہ ضد کے ساتھ ہوتا ہے آپ کے تینوں خطوں میں استغنا کے سوا کچھ مفہوم نہ ہوا۔ اگر چہ آپ کا مقصود تواضع تھا۔ مثلاً اخیر کے مکتوب میں لکھا تھا کہ حمد و صلٰوۃ کے بعد واضح ہو۔ اس عبارت کو اچھی طرح معلوم کریں کہ کہاں لکھنی چاہئے اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ نے فقراء کی بہت خدمت کی ہے لیکن آداب خدمت کا مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے تا کہ خدمت کا ثمرہ حاصل ہو ۔ وَبِدُونِهَا خَرَطُ الْقَتَادِ ورنہ بے فائدہ تکلیف ہے۔ ہاں آنحضرت صلی اللہ وآلہ وسلم کی امت کے متقی لوگ تکلف سے بری ہیں لیکن متکبروں کے ساتھ تکبر کرنا صدقہ ہے۔
کسی شخص نے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کو کہا کہ یہ شخص متکبر ہے آپ نے فرمایا کہ میرا تکبر خدا کی جانب سے ہے۔ آپ اس گروہ کو ذلیل و خوار نہ بجھیں ۔ رُبَّ أَشْعَثِ مَدْنُوعِ ۔ بِالْبَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَا بَرَّاهُ ) بہت سے ایسے پراگندہ حال درویش ہیں جن کو لوگ دروازه بدروازہ ہانکتے ہیں لیکن اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو اللہ اس کو پورا کر دے۔) حدیث نبوی صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
که دل آزرده شوی ور نه سخن بسیار است
ترجمه: غم دل اس لئے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے دلبر
کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا
آپ کے دلی مخلصوں اور عزیز دوستوں کو لازم ہے کہ حقیقت حال کو مد نظر رکھا کریں جو کچھ آپ کی خدمت میں عرض کریں اصلی واقعہ بیان کریں اور جو مشورہ دیں اس میں آپ کی صلاح کو منظور رکھیں نہ اپنی مصلحتوں کو کہ یہ خیانت محض ہے۔ اس سفر کی علت نمائی اور اصلی غرض یہ بھی تھی کہ آپ کو کچھ فائدہ اور نفع حاصل ہوتا۔ مگر عالم اسباب میں آپ کے محبوں اور مخلصوں نے نہ ہونے دیا اور اس طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہ سمجھیں۔ اگر چہ اس قسم کی باتیں تلخ معلوم ہوتی ہیں لیکن آپ کے خوشامد گو بہت ہیں۔ انہیں پر کفایت کریں۔ فقرا کی محبت سے مقصود یہی ہے کہ پوشیدہ عیبوں پر اطلاع ہو جائے اور پوشیدہ برے فعل ظاہر ہو جائیں ۔ لیکن جان لیں کہ اس قسم کی باتوں کا ظاہر کرنا آپ کو آزار تکلیف دینے کی غرض سے نہیں ہے ۔ بلکہ خیر خواہی اور محبت کے باعث ہے اس بات کو یقین سے تصور کریں۔ خواجہ محمد صدیق اگر ایک روز پہلے آتا تو امید تھی کہ فقیر بہر حال اپنے آپ کو آپ کی خدمت میں پہنچا تا لیکن سرہند کے راہ میں ہی ملاقات ہوگئی۔ اس لئے معذور و معارف فرمائیں گے ۔ الْخَيْرَ فِيْمَا صَنَعَ اللہ۔ بہتر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کرے۔ –