مکتوب 68
نورانی ستون اور دم دار ستارہ کے بیان میں جو مشرق کی جانب سے طلوع ہوئے تھے اور قیامت کی علامتوں کے بیان میں خواجہ شرف الدین حسین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
بِسمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِي لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَ تُ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَقِّ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں )۔ صحیفہ شریفہ جو فرزند عزیز نے مولانا ابوالحسن کے ہمراہ روانہ کیا تھا پہنچا پڑھ کر بڑی خوشی
ہوئی تم نے ستون کی نسبت جو مشرق کی طرف سے پیدا ہوا تھا دوبارہ دریافت کیا ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ خبر میں آیا ہے کہ جب عباسی بادشاہ جو حضرت مہدی کے ظہور کے مقدمات میں سے ہے۔ خراسان میں پہنچے گا۔
مشرق کی طرف قرن ذوسنین ( دو دندانہ والا سینگ) طلوع کرے گا۔ اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ستون مذکور کے دوسر ہوں گے۔ پہلے پہل اس وقت طلوع ہوا تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہلاک ہوئی تھی ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں طلوع ہوا تھا۔ جب کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کے ہلاک ہونے کے وقت بھی طلوع ہوا تھا اور حضرت یحییٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے قتل کے وقت بھی ہوا تھا جب اس کو دیکھیں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں فتنوں کے شر سے پناہ مانگیں ۔ یہ سفیدی جو مشرق کی طرف سے طلوع ہوئی تھی۔
اوّل ستون منور کی صورت میں تھی ۔ بعد ازاں ٹیڑھی ہو کر سینگ کی مانند ہوگئی۔ شاید اسی اعتبار سے فرمایا ہو کہ اس سینگ کے دونوں طرف دانتوں کی طرح باریک ہو گئے تھے۔ ان دونوں طرفوں کو دوسرا اعتبار کیا ہے۔ جیسے کہ نیزہ کے دونوں طرف باریک ہوں اور ان کو دوسرا اعتیاد کریں۔ برادرم شیخ محمد طاہر بدخشی جونپور سے آیا ہے اور کہتا ہے کہ اس ستون کے اوپر کی طرف دانتوں کی طرح دوسر تھے۔ جن میں تھوڑا سا فاصلہ تھا جنگل میں اس بات کو تشخیص کیا تھا اور لوگوں نے بھی اسی طرح خبر دی ہے۔
یہ طلوع اس طلوع سے الگ ہے جو حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کے وقت پیدا ہوگا ۔ کیونکہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ صدی کے بعد آئیں گے اور ابھی سو میں سے اٹھائیس سال گزرے ہیں۔ نیز حدیث میں حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی علامتوں میں آیا ہے کہ مشرق کی طرف سے ایک ستارہ طلوع ہوگا جس کا دم نورانی ہو گا ۔ یہ ستارہ جو طلوع ہوا ہے شاید وہی ہے یا اس کی مثال ہے اور اس ستارہ کو دمدار اس واسطے کہتے ہیں کہ حکماء نے لکھا ہے کہ ثوابت ستاروں کا سیر مغرب سے مشرق کی طرف ہے۔ پس اس ستارہ کا رخ اپنی سیر میں مشرق کی طرف ہے اور پیٹھ مغرب کی طرف۔ پس وہ لمبی سفیدی جو اس کے پیچھے دم کے مناسب ہے اور مشرق سے مغرب کی طرف ہر روز بلند ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس کا سیر قسری ہے جو فلک اعظم کے میرے وابستہ ہے ۔ واللہ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ ( اللہ تعالیٰ حقیقت حال کو بخوبی جانتا ہے )۔
غرض امام مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کا وقت نزدیک ہے دیکھیں صدی تک جو اس کے ظہور کا وقت ہے کیا کیا مقدمات و مبادی ظہور میں آئیں گے۔ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور کے یہ مقدمات و مبادی ہمارے پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے ارہاصات کی طرح ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نور نبوت کے ظہور سے اول ظاہر ہوئے تھے۔
چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عبداللہ کے نطفہ نے جو حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی صورت کا مادہ تھا۔ آمنہ کے رحم میں قرار پکڑا تمام روئے زمین کے بت سرنگوں ہو گئے اور تمام شیطان اپنے سے کام بند ہو گئے۔ فرشتوں نے ابلیس کے تخت کو اوندھا کر کے دریا میں ڈال دیا اور چالیس دن تک عذاب کیا اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ولادت کی رات کو سرٹی کے محل میں زلزلہ آ گیا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور فارس کی آگ جو ہزار سال سے روشن تھی اور کبھی نہ بجھتی تھی یکدم بجھ گئیں۔
جب حضرت مہدی رضی اللہ عنہ بڑے ہو جائیں گے اور ان کے سبب اسلام اور مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہوگی اور ظاہر و باطن میں ان کی ولایت کا تصرف عظیم ہو گا اور کئی طرح کے خوارق و کرامات ان سے ظاہر ہوں گے اور عجیب و غریب نشان ان کے زمانہ میں پیدا ہوں گے تو ممکن ہے کہ ان کے وجود سے پہلے نبی صلى الله عليه وسلم کے ارہامات کی طرح مختلف قسم کے خرق عادات ظاہر ہوں جو ان کے ظہور کے مبادی ہوں جیسا کہ احادیث سے مفہوم ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان ظاہر نہ ہوں گے جب تک کفر غالب نہ ہو گا یعنی اس وقت کفرو کا فری غالب ہوگی اور اسلام ومسلمان زبون ومغلوب ۔ اب وہی وقت ہے جس میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اہل اسلام کے غربا کو طوبی فرمایا ہے اور بشارت دی ہے
اور فرمایا ہے کہ الْعِبَادَةُ فِي الْهَرَجِ كَهِجَرَةٍ إِلَی۔ یعنی فتنہ کے وقت عبادت کرنا گویا میری طرف ہجرت کرنا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ سپاہی فتنہ و فساد کے وقت اگر تھوڑی سی بھی دلیری اور بہادری دکھائی تو اس قدر اعتبار اور مقدار رکھتی ہے کہ فتنہ فرو ہونے کے وقت اس قسم کی ہزار ہا بہادری اور دلیری اتنا اعتبار و مقدار نہیں رکھتی۔ پس کام کرنے اور قبول ہونے کا وقت بھی فتنہ وفساد کا وقت ہے۔ ہمہ تن حق تعالیٰ کی مرضیات میں مشغول ہو جاؤ اور سنت سنیہ کی متابعت کے بغیر کچھ اختیار نہ کرو۔ اگر چاہتے ہو کہ مقبولوں میں اٹھائے جاؤ اصحاب کہف ایک ہی ہجرت سے جو فتنہ کے غلبہ کے وقت ان سے ظہور میں آئی ۔ بلند درجہ تک پہنچ گئے۔
تم تو خود محمدی ہو ( صلى الله عليه وسلم ) اور بہترین امت میں داخل ہوا اپنے وقت کو کھیل کود میں ضائع نہ کرو اور بچوں کی طرح جوز و مویز پر فریفتہ نہ ہو۔
بیت دادیم تر از گنج مقصود نشاں
ما اگر نرسیدیم تو شاید برسی
ترجمہ تجھے گنج مقصود بتلایا ہم نے
ملا گر نہیں ہم کو شاید تو پالے
نورانی ستون جو اس دمدار ستارہ کے ظہور سے پہلے طلوع ہوا تھا۔ اس میں کوئی ظلمت و کدورت مفہوم نہ ہوتی تھی اور سوائے خیر و برکت کے اس میں کچھ نظر نہ آتا تھا لیکن ستارہ دم دار میں کدورت کی آمیزش تھی ۔ لابل النافع والضار هُوَ اللَّهُ ( نہیں بلکہ نفع دینے والا اور ضرر پہنچانے والا اللہ تعالی ہے ) کسی ستارہ کے متعلق کسی شخص کی موت یازندگی نہیں ہے جو کچھ قرآن مجید سے مفہوم ہوتا ہے۔ تین غرضیں ستاروں سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ (یعنی بری اور بحری سفر میں ستاروں کے ذریعے راستہ معلوم کر لیتے ہیں)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَ لَقَدْ زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَ جَعَلْنَا هَا رُجُوْمًا لِلشَّيَاطِينِ ۔ یعنی دنیا کے آسمان کو ہم نے ستاروں سے آراستہ کیا تیسری غرض شیطانوں کا رجیم یعنی سنگساری ان پر وابستہ ہے تا کہ باتوں کو نہ چرائیں۔ ان تین غرضوں کے سوا جو کچھ کہتے ہیں اس کا کچھ ثبوت نہیں ۔ سب وہم و خیال میں داخل ہے۔ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا – ( ظن سے کوئی حق بات ثابت نہیں ہوتی ) بلکہ ہم کہتے ہیں کہ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم
( بعض ظن گناہ ہوتا ہے )۔ عزیز ا۔ بار بار لکھا جاتا ہے کہ اب توجہ وانا بت اور تجمل وانقطاع یعنی خلق سے الگ ہونے کا وقت ہے۔ جو فتنوں کے وارد ہونے کا زمانہ ہے اور نزدیک ہے کہ فتنے ابر بہاری کی طرح برسیں اور جہان کو گھیر لیں ۔
مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قیامت آنے سے پہلے سیاہ رات کی طرح فتنے برپا ہوں گے۔ اس وقت آدمی اگر صبح کو مومن ہو گا تو شام کو کا فر ہوگا اور اگر شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ہوگا۔ اس وقت بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے اچھا ہو گا۔ اس وقت تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالواور اپنی تلواروں کو پتھروں سے کند کردو ۔ اگر تم میں سے کوئی کسی کے پاس جائے تو اس کے پاس آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں میں سے بہتر کی طرح جائے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے پوچھا کہ ہم کیا کریں۔
فرمایا اس وقت تم اپنے گھر وں میں بیٹھے رہو اور دوسری روایت میں ہے کہ اپنے گھروں کے اندروں کو لازم پکڑو۔ تم کو معلوم ہوگا کہ انہی دنوں میں دارالحرب کے کفار نے نگر کوٹ کے گردونواح میں مسلمانوں اور ان کے شہروں پر کیا کیا ظلم وستم کیے ہیں اور کیسی اہانت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے۔ اس قسم کے بدبودار پھول زمانہ کے آخر ہونے کے باعث بہت کھلیں گے۔ ثبتنا الله و إِيَّاكُمْ وَ جَمِيعَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مُتَابَعَةِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ الصَّلَوةُ وَالسَّلامُ وَعَلَى آلِ كُلّ وَ عَلى مَلئِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ ( اللہ تعالٰی ہم کو اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کوسید المرسلین علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت پر ثابت قدم رکھے )