0

مکتوب 69: نماز کے تعدیل ارکان اور طمانیت اور صفوں کی برابری اور اس بیان میں کہ کفار کے جہاد پر جانے کے لیے نیت کو درست کرنا چاہئے


مکتوب 69

نماز کے تعدیل ارکان اور طمانیت اور صفوں کی برابری اور اس بیان میں کہ کفار کے جہاد پر جانے کے لیے نیت کو درست کرنا چاہئے اور نماز تہجد کا حکم کرنے اور لقمہ میں احتیاط کرنے کے بیان میں محمد مراد بدخشی کی طرف صادر فرمایا ہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفی اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔


صحیفہ شریف جو آپ نے ارسال کیا تھا پہنچا۔ یاروں کی ثابت قدمی اور استقامت کا حال پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ زَادَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ ثُبَاتًا وَاسْتِقَامَةَ اللَّہ تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی اور استقامت عطا فرمائے۔ آپ نے لکھا تھا کہ خادم جس امر کے بجالانے کے لیے مامور ہے مع ان یاروں کے جو داخل طریقہ ہیں۔ ہمیشہ بجالاتا ہے اور پنج وقتی نماز کو پچاس ساٹھ آدمیوں کی جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے اس بات پر اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے۔ یہ کس قدر اعلیٰ نعمت ہے کہ باطن ذکر الہی سے معمور ہو اور ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ ہو چونکہ اکثر لوگ اس زمانہ میں نماز کے ادا کرنے میں سستی کرتے ہیں اور طمانیت اور تعدیل ارکان میں کوشش نہیں کرتے ۔ اس لیے اس بارہ میں بڑی تا کید اور مبالغہ سے لکھا جاتا ہے غور سے سنیں۔

مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چوروں میں سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ حاضرین نے عرض کیا یا رسول اللہ نماز سے کس طرح چراتا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ نماز میں چوری یہ ہے کہ رکوع و سجود کو اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جور کوع وسجود میں اپنی پیٹھ کو ثابت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک شخص کو نماز ادا کرتے دیکھا کہ رکوع مسجود پورا نہیں کر رہا۔ تو فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ۔ اگر تو اسی عادت پر مر گیا تو دین محمد پر تیری موت نہ ہوگی یعنی تو دین محمد کے برخلاف مرے گا ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوگی جب تک رکوع کے بعد سیدھا نہ کھڑا ہواور اپنی پیٹھ کو ثابت نہ رکھے اور اس کا ہر ایک عضو اپنی اپنی جگہ پر قرار نہ پکڑے۔ اسی طرح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کے وقت اپنی پشت کو درست نہیں کرتا اور ثابت نہیں رکھتا اس کی نماز تمام نہیں ہوتی۔

حضرت رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ایک نمازی کے پاس سے گزرے دیکھا کہ احکام وارکان و قومہ و جلسہ بخوبی ادا نہیں کرتا تو فرمایا کہ اگر تو ای عادت پر مر گیا تو قیامت کے دن تو میری امت میں نہ اٹھے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہتا ہے اور اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی ۔

ایسا شخص ہے جور کوع وجود کو بخوبی ادا نہیں کرتا۔ لکھتے ہیں کہ زید بن وہب نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع و سجود بخوبی ادا نہیں کرتا اس مرد کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو کب سے اس طرح نماز پڑھ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ چالیس سال سے۔ فرمایا کہ اس چالیس سال کے عرصے میں تیری کوئی نماز نہیں ہوئی ۔ اگر تو مر گیا تو نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت پر نہ مرے گا۔ منقول ہے کہ جب بندہ مومن نماز کو اچھی طرح ادا کرتا ہے اور اس کے رکوع و سجود کو بخوبی بیجا لاتا ہے اس کی نماز بشاش اور نورانی ہوتی ہے۔

فرشتے اس نماز کو آسمان پر لے جاتے ہیں۔ وہ نماز اپنے نمازی کے لیے دعا کرتی ہے اور کہتی ہے حَفِظَكَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ كَمَا حَفِظْتَتِنِيِّ اللَّهِ تعالیٰ تیری حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی ) اور اگر نماز کو اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔ وہ نماز سیاہ رہتی ہے۔ فرشتوں کو اس نماز سے کراہت آتی ہے اور اس کو آسمان پر نہیں لے جاتے ۔ وہ نماز اس نمازی پر بددعا کرتی ہے اور کہتی ہے۔ ضَيْعَكَ اللَّهُ تَعَالَى كَمَا ضَيَعْتَنِی ۔ ( خدا تعالیٰ تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا ) ۔


پس نماز کو پوری طرح ادا کرنا چاہئے ۔ تعدیل ارکان رکوع و سجود اور قومه وجلسہ اچھی طرح بیجا لانا چاہئے۔ دوسروں کو بھی فرمانا چاہئے کہ نماز کو کامل طور پر ادا کریں اور طمانیت اور تعدیل ارکان میں کوشش کریں کیونکہ اکثر لوگ اس دولت سے محروم ہیں اور یہ عمل متروک ہو رہا ہے۔ اس عمل کا زندہ کرنادین کی ضروریات میں سے ہے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ مجوشخص میری کسی مردہ سنت کو زندہ کرتا ہے اس کو سوشہیدوں کا ثواب ملتا ہے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے وقت صفوں کو برابر کرنا چاہئے ۔ نمازیوں میں سے کوئی شخص آگے پیچھے کھڑا نہ ہو ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ سب ایک دوسرے کے برابر ہوں۔ رسول اللہ سب سے پہلے اوّل صفوں کو درست کر لیا کرتے تھے۔ پھر تحریمہ کہا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ صفوں کو درست کرنا نماز کی اقامت ہے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنكَ رَحْمَةً و هِي لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا – ( يا رب اپنے پاس سے تو ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کاموں سے ہدایت ہمارے نصیب کر ) اے سعادت کے نشان والے عمل نیت کے ساتھ درست ہوتا ہے چونکہ آپ دارالحرب کے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے جارہے ہیں اس لیے اول نیت کو درست کریں تا کہ اس پر نتیجہ مترتب ہو۔ اس جنگ و جدال سے مقصود یہ ہونا چاہئے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور دین کے دشمن ذلیل ہوں کیونکہ ہم اس امر پر مامور ہیں اور جہاد سے مقصود یہی ہے ۔

غازیوں کی رسد یا وظیفہ جو بیت المال سے مقرر ہے۔ جہاد کے منافی نہیں اور غازیوں کے اجر میں کچھ کی نہیں ہوتی ۔ بری نتیں عمل کو باطل کر دیتی ہیں۔ نیت کو درست کر کے بیت المال سے وظیفہ کھائیں اور جہاد کریں اور غازیوں اور شہیدوں کے اجروں کے امیدوار رہیں۔ آپ کے حال پر رشک آتا ہے کہ آپ باطن میں حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہیں اور ظاہر میں نماز جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ دارالحرب کے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کی دولت سے بھی مشرف ہو گئے ہیں۔ جو شخص سلامت بیچ کر آ گیا وہ نمازی اور مجاہد ہے جو ہلاک ہو گیا۔ وہ شہید پاک ہے لیکن یہ سب کچھ نیت کے درست کرنے کے بعد متصور ہے۔ اگر نیت کی حقیقت ثابت نہ ہو تو تکلف کے ساتھ اپنے آپ کو اس نیت پر لانا چاہئے اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی التجا اور زاری کرنی چاہئے تا کہ نیت کی حقیقت حاصل ہو جائے۔


رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير ۔ یا اللہ تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش تو سب شے پر قادر ہے۔ )


دوسری نصیحت جو بیان کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ نماز تہجد کو لازم پکڑیں کیونکہ طریقت کی ضروریات میں سے ہے پہلے بھی آپ کو تا کید کی گئی تھی کہ اگر یہ بات آپ کو مشکل معلوم ہوتی ہے اور خلاف عادت بیدار نہیں ہو سکتے تو متعلقین میں سے کسی کو اس امر پر مقرر کر دیں تا کہ آپ کو اس وقت جبرًا كرها. جگا دیا کریں اور آپ کو خواب غفلت میں نہ پڑا رہنے دیں جب چند روز تک اس طرح کریں گے امید ہے کہ بلا تکلف، یہ دولت میسر ہو جائے گی اور نصیحت یہ ہے کہ لقمہ میں احتیاط رکھیں یہ اچھا نہیں کہ جو کچھ آیا اور جو نس جگہ سے آیا جھٹ کھالیا اور حلال و حرام شرعی کا کچھ لحاظ نہ کیا۔ یہ انسان خود مختار نہیں ہے کہ جو کچھ چاہے کرے۔ نہیں بلکہ اس کا ایک مولا ہے جس نے اس کو امر و نہی پر مکلف فرمایا ہے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے اپنی رضامندی اور نارضامندی کو بیان کر دیا ہے وہ : بہت ہی بد بخت انسان ہے جو اپنے مالک کی مرضی کے برخلاف کرے اور مالک کی اجازت کے بغیر اس کے ملک و ملک میں تصرف کرے۔ بڑی شرم کی بات ہے کہ مجازی حاکم کی رضامندی میں اس قدر کوشش کرتے ہیں کہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور مولائے حقیقی کی رضا جوئی کے لیے جس نے تاکید و مبالغہ کے ساتھ برے کاموں سے منع کیا اور جھڑ کا ہے، کچھ التفات نہیں کرتے ۔ غور کرنا چاہئے کہ یہ اسلام ہے یا کفر بھی کچھ نہیں بگڑا۔

ابھی گزشتہ کا تدارک ہوسکتا ہے۔ السَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنُ لا ذَنْبَ لَهُ – ( گناہوں سے تو بہ کرنے والا ایسا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا، قصور کرنے والوں کے لیے بشارت ہے اور اگر کوئی شخص گناہ پر اصرار کرے اور اس پر خوش رہے تو وہ منافق ہے۔ ظاہری اسلام اس کے عذاب و عقاب کو دور نہیں کر سکے گا۔ اس سے زیادہ کیا تاکید و مبالغہ کیا جائے عاقل کو ایک اشارہ کافی ہے۔ دوسرے واضح ہو کہ دشمن کے غلبہ اور خوف کے وقت امن و امان کے لیے سورت لا يُلف کا پڑھنا خوب ہے۔ ہر دن اور رات کو کم از کم گیارہ گیارہ بار پڑھا کریں ۔


حدیث نبوی صلى الله عليه وسلم میں آیا ہے کہ مَنْ نَزَلَ مَنزِلاً ثُمَّ قَالَ اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ الثَّامَاتِ كُلَّهَا مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ لَا يَضُرُّهُ شَيْءٍ حَتَّى ارْتَحَلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ( جو شخص کسی جگہ اترے اور اَعُوذُ
بكَلِمَاتِ اللہ الخ پڑھے ۔ وہاں سے کوچ کرنے تک اس کو کوئی چیز ضرر نہ دے گی ) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى – سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا