2

مکتوب 70: اس بیان میں کہ انسان کیلئے جس طرح اس کی جامعیت اس کے قرب کا باعث ہے


مکتوب 70

اس بیان میں کہ انسان کیلئے جس طرح اس کی جامعیت اس کے قرب کا باعث ہے ویسے ہی یہ جامعیت اس کے بعد کا بھی باعث ہے اور اس کے مناسب بیان میں خانِ خاناں کی طرف صادر فرمایا ہے:


بتْكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ عَلَى جَادَّةِ الشَّرِيعَةِ المُصْطَفِوِيَةِ عَلَى صَاحِبَهَا الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ المُحَبَّهُ وَ يَرْحَمُ اللهُ عَبَداً قَالَ امِيناً : اللہ تعالیٰ آپ کو شریعت مصطفوی کے سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے جس نے آمین کہا۔

انسان کے لئے جس طرح کہ اس کی جامعیت اس کے قرب اور کرامت اور فضیلت کا باعث ہے۔ اسی طرح یہی جامعیت اس کے بعد ذلت و خواری کا موجب ہے۔ قرب کا باعث تو اس واسطے سے ہے کہ اس کا آئینہ تمام و کمال ہے اور تمام اسماء و صفات بلکہ تجلیات ذاتیہ کے بھی ظہور کی قابلیت رکھتا ہے۔ حدیث قدسى: لَا يَسعُنِى اَرْضِي وَلَا سَمَائِي وَلَكِن يُسِعُنِي قَلْبُ عَبْدٍ مُؤْمِنِ۔ ( نہ میں زمین میں سما سکتا ہوں نہ آسمان میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں ) میں اسی بیان کی رمز ہے اور اس کے بعد اور دوری کا باعث اس لئے ہے کہ جہان کی تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اس کو حاجت ہے کیونکہ سب چیزیں اس کو درکار ہیں ۔ خَلَقَ لَكُم مَّا فِى الارْضِ جَمِيعاً : زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔

اس احتیاج کے باعث ان سب اشیاء میں وہ ایسا گرفتار ہے کہ اس کے بعد اور گمراہی کا موجب ہے۔


پایه آخر آدم اسب و آدمی
گشت محروم از مقام محرمی


گرنہ گرد باز مسکیں زیں سفر
نیست از وے ہیچ کس محروم تر


ترجمہ: سب سے آخر رتبہ ہے انسان کا
اس لئے محروم سب سے ہو گیا


گر نہ لوٹے اس سفر سے یہ گدا
ہے پھر اس کے حال پر واحسرتا


پس تمام مخلوقات میں سے بہتر بھی انسان ہی ہے اور بدتر بھی انسان ہے۔ کیونکہ حبیبِ رب العالمین حضرت محمد الرسول اللہ صلى الله عليه وسلم بھی اسی سے تھے اور زمین و آسمان کے پیدا کرنے والا خدائے پاک کا دشمن ابو جہل لعین بھی اسی سے۔ غرض جب تک ان سب کی گرفتاری سے آزاد ہو کر ایک خدا کے ساتھ جو ایک ہونے سے بھی منزہ وپاک ہے گرفتار و مقید نہ ہو جا ئیں تب تک خرابی ہی خرابی اور و بال ہی وبال ہے۔ لیکن مَا لَا يُدْرِكُ كُله لا يُشْرِكُ كُلُّه کے موافق اپنی چند روزہ زندگانی کو صاحب شریعت صلى الله عليه وسلم کی تابعداری میں بَسر کرنا چاہئے کیونکہ آخرت کے عذاب سے بچنا اور ہمیشہ کی نعمتوں سے کامیاب ہونا اسی تابعداری کی سعادت پر وابستہ ہے۔ پس پڑھنے والے مالوں اور چرنے والوں چارپاؤں کی زکوۃ پورے طور پر آدا کرنی چاہئے ۔ اور اس کو مالوں اور چارپاؤں کے ساتھ تعلق نہ ہونے کا وسیلہ بنانا چاہئے اور لذیذ کھانوں اور نفیس کپڑوں میں نفس کا فائدہ مدِ نظر رکھنا چاہئے ۔ بلکہ کھانے پینے وغیرہ سے اس کے سواء اور کوئی نیت نہ ہونی چاہئے کہ اطاعت کے آدا کرنے پر قوت حاصل ہو ۔ نفیس کپڑوں کو خذوا زیـنـتـكـم عـنـدكـل مسجد عـنـد کـل صلوۃ، کے موافق مذکورہ بالا زینت کی نیت پر پہنا چاہئے اور کسی اور نیت کو اس میں نہ ملانا چاہئے

اور حقیقی طور پر نیت میسر نہ ہو تو اپنے آپ کو تکلف سے اس نیت پر لانا چاہئے ۔ فَانُ لَمْ تُبكوا فَتَباكُو اگر تم کو رونا نہ آئے تو رونے والوں کی صورت بنالو اور ہمیشہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا اور زاری کرنی چاہئے کہ حقیقی نیت حاصل ہو جائے اور تکلف دور ہو جائے ۔


مے تو اندر دهد اشک مرا حسن قبول
آنکه در ساخته است قطره بارانی را


ترجمہ : عجب نہیں کہ وہ کر لے قبول گر یہ مرا
دیا ہے قطرہ باراں کو جس نے موتی بنا

علٰى هذا القياس تمام امور میں علمائے دیندار کے فتویٰ کے موافق جنہوں نے عزیمت کو اختیار کیا ہے اور رخصت سے تجاوز کیا ہے ۔ زندگانی بسر کرنی چاہئے اور اس کو ہمیشہ کی نجات کا وسیلہ بنانا چاہئے ۔ مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَا بِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَ امَنتُم: اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا