2

مکتوب 73 : دنیا اور اہل دنیا کی مذمت اور بے فائدہ علوم کے حاصل کرنے کی برائی اور فضول مباحات سے بچنے اور خیرات و اعمال صالحہ کے خاص کر جوانی کے وقت بجالانے کی ترغیب


مکتوب 73

دنیا اور اہلِ دنیا کی مذمت اور بے فائدہ علوم کے حاصل کرنے کی برائی اور فضول مباحات سے بچنے اور خیرات و اعمال صالحہ کے خاص کر جوانی کے وقت بجالانے کی ترغیب اور اس کے مناسب بیان میں قلیچ اللہ بن قلیچ خان کی طرف لکھا ہے:


حق تعالیٰ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی روشن شریعت کے سیدھے راستہ پر چلنے کی استقامت بخشے ۔ اے فرزند ! دنیا آزمائش اور امتحان کا مقام ہے اس کے ظاہر کو طرح طرح کی آرائشوں سے ملمع اور آراستہ کیا ہے اور اس کی صورت کو وہمی خط و خال اور زلف و چہرہ سے پیراستہ کیا ہے ۔

دیکھنے میں شیریں اور تر و تازہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں عطر لگا ہوا مردار اور مکھیوں اور کیڑوں سے بھرا ہوا کوڑا اور پانی کی طرح دکھائی دینے والا سراب اور زہر کی مانند شکر ہے اس کا باطن سراسر خراب اور ابتر ہے اور باوجود اس قدر گندہ ہونے کے اس کا معاملہ اہل دنیا کے ساتھ اس سے بھی بد تر ہے جو بیان ہو سکے ۔ اس کا فریفتہ دیوانہ اور جادو کا مارا ہے اس کا گرفتار دھوکہ کھایا ہوا اور مجنون ہے جو شخص اس کے ظاہر پر فریفتہ ہوا ہمیشہ کا گھاٹا اس کے ہاتھ آیا اور جس نے اس کی مٹھاس اور ترو تازگی پر نظر کی ہمیشہ کی شرمندگی اس کے نصیب ہوئی۔


سرورِ کائنات حبیبِ رب العلمین صلٰی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَا الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا ضَرَّتَانِ إِن رَضِيْتُ إِحْدَاهُمَا سَخِطَتِ الأخرى، دنیا اور آخرت دونوں آپ میں سوکن ہیں۔ اگر ایک راضی ہو گی تو دوسری ناراض ۔ پس جس نے دنیا کو راضی کیا آخرت اس سے ناراض ہو گئی پس آخرت سے بے نصیب ہو گیا ۔ حق تعالیٰ ہم کو دنیا اور اہل دنیا کی محبت سے بچائے۔

اے فرزند ! کیا تو جانتا ہے کہ دنیا کیا ہے دنیا وہی ہے جو تجھے حق تعالی کی طرف سے ہٹا رکھے۔ پس زن اور مال و جاہ و ریاست و لہو ولعب اور بیہودہ کا روبار مشغول ہونا سب دنیا ہی میں داخل ہے اور وہ علوم جو آخرت میں کام آنے والے نہیں ہیں ، سب دنیا میں ہی داخل ہیں۔ اگر نجوم و هندسه و منطق و حساب وغیرہ بے فائدہ علوم کا حاصل ہونا مفید ہوتا تو فلاسفہ سب اہل نجات میں سے ہوتے ۔


آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ عَلَامَةُ إِعْرَاضِهِ تَعَالَى عَنِ الْعَبْدِ اشْتِغَالُهُ بِمَالَا يُغْنِيهِ: بندہ کا فضول کاموں میں مشغول ہونا خدا تعالیٰ کی روگردانی کی علامت ہے۔

ہر چہ جز عشق خدائے احسن است
گر شکر خوردن بود جان کندن است

ترجمہ : سوائے عشق حق جو کچھ کہ ہے ہر چند احسن ہے
شکر کھانا بھی گر ہووے عذاب جان کندن ہے

اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ علم نجوم نماز کے وقت پہنچانے کیلئے درکار ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ علم نجوم کے بغیر اوقات پہچانے نہیں جاتے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ علم نجوم اوقات کے پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ بہت لوگ علم نجوم نہیں جانتے مگر نماز کے اوقات کو نجوم کے جانے والوں سے بہتر جانتے ہیں اور علم منطق اور حساب وغیرہ کے حاصل کرنے کی بھی جن کا مجمل طور پر حاصل کرنا بعض علوم شرعی میں ضروری ہے ۔ یہی وجہ بیان کرتے ہیں غرض بہت سے حیلوں کے بعد ان علوم کے ساتھ مشغول ہونے کا جواز ثابت ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ احکام شرعیہ کی معرفت اور علم کلام کی دلیلوں کی تقویت کے سوا ان کے حاصل کرنے سے اور کوئی غرض مدنظر نہ ہو ورنہ ہرگز جائز نہیں ہیں ۔


انصاف کرنا چاہئے کہ جب امر مباح جس کے اختیار کرنے سے امور واجب فوت ہو جائیں اباحت سے خارج ہو جاتا ہے۔ تو کچھ شک نہیں کہ ان علوم میں مشغول ہونے سے علوم شرعی ضروری کا اشتغال فوت ہو جاتا ہے۔

اے فرزند احق تعالیٰ نے اپنی بڑی مہربانی سے تجھ کو ابتدائے جوانی میں تو بہ کی توفیق عطا فرمائی تھی اور اس سلسلہ علیہ نقشبند یہ قدس سرہم کے درویشوں میں سے ایک درویش کے ہاتھ پر انابت ورجوع کی طاقت بخشی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ نفس وشیطان کے ہاتھ سے تجھ کو اس توبہ پر ثابت رہنا نصیب ہوا ہے یا نہیں ۔ استقامت مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ جوانی کا زمانہ ہے اور دنیاوی اسباب سب حاصل ہیں اور وہ بھی ہمسروں کی نسبت زیادہ نا مناسب اور نا موافق ۔

همه اندرزمن بتو این است
که تو طفلی و خانه رنگین است

ترجمه: نصیحت میری تجھ سے ساری یہی ہے
کہ گھر ہے منقش تو بچہ ابھی ہے


اے فرزند ! عرض یہی ہے کہ فضول مباحات سے پر ہیز کی جائے اور مباحات سے ضرورت کے موافق پر کفایت کرنی چاہئے اور ان میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ وظائف بندگی کے ادا کرنے کی جمعیت حاصل ہو ۔ مثلاً کھانے سے مقصود طاعت کے ادا کرنے کی قوت اور پوشاک سے ستر عورت اور گرمی و سردی کا دور کرنا ہے باقی مباحات ضرور یہ میں بھی یہی قیاس کرلو۔

نقشبندیه بزرگواروں قدس سرہم نے اپنا عمل عزیمت پر اختیار کیا ہے اور رخصت سے حتی المقدور پرہیز کی ہے اور منجمد سب عزیمتوں کے قدر ضرورت پر کفایت کرنا ہے ۔ اگر یہ دولت میسر نہ ہو ۔ تو مباحات کے دائرہ سے پاؤں باہر نہ نکالنا چاہئے اور حرام و مشتبہ کے نزدیک نہ جانا چاہئے۔ حق تعالیٰ نے اپنی کمال بخشش سے امور مباحہ کے ساتھ کامل اور پورے طور پر لذت کا حاصل کرنا جائز فرمایا ہے اور اس قسم کی نعمتوں کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ ان نعمتوں اور لذتوں سے قطع کر کے کون سی عیش اس کے برابر ہے کہ بندے کا مولٰی اس کے کام سے راضی ہو جائے اور کون سا ظلم اس کے برابر ہے کہ اس کا مالک اس کے اعمال سے ناراض ہو جائے ۔ جنت میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی جنت سے بہتر ہے اور دوزخ میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دوزخ سے بدتر ہے۔

یہ انسان اپنے مولٰی کے حکم کا غلام ہے اس کو خود مختار نہیں بنایا کہ جو چاہے کرے۔ اس کی کچھ باز پرس نہ ہوگی ۔ فکر کرنا چاہئے اور عقل دور اندیش سے کام لینا چاہئے کل قیامت کے دن ندامت اور خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کام کا وقت جوانی کا زمانہ ہے۔ جوان مرد وہ ہے جو اس وقت کو ضائع نہ کرے اور فرصت کو غنیمر جانے ممکن ہے کہ اس کو بڑھاپے تک پہنچنے نہ دیں اور اگر پہنچنے بھی دیں تو جمعیت حاصل نہ ہوگی اور اگر حاصل ہوگی تو ضعف اور سستی کے وقت کچھ نہ کر سکے گا۔ اس وقت جمعیت کے اسباب مہیا ہیں اور والدین کا وجود بھی خدائے تعالیٰ کے بڑے انعاموں میں سے ہے کہ معاش اور گزارہ کا غم ان کے سر پر ہے اور فرصت کا موسم اور قوت و استطاعت کا زمانہ ہے کسی عذر سے آج کے کام کو کل پر نہ ڈالنا چاہئے اور اپنا اسباب تسویف میں یعنی دیر میں نہ کھینچنا چاہئے۔

آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ هَلَكَ الْمُسَوَفُونَ سَوْفَ اَفْعَلُ، یعنی آج کل کرنے والے ہلاک ہو گئے ۔ ہاں اگر دنیا کمینی کے کاموں کو کل پر ڈال دیں اور آج آخرت کے عملوں میں مشغول ہو جائیں تو بہت ہی اچھا ہے جیسا کہ اس کا عکس بہت ہی برا ہے۔ جوانی کے وقت جب کہ دینی دشمنوں یعنی نفس و شیطان کا غلبہ ہے۔ تھوڑا عمل بھی اس قدر معتبر ہے کہ ان کے غلبہ نہ ہونے کے وقت اس سے کئی گناہ زیادہ عمل مقبول نہیں۔ فن سپاہ گری میں دشمنوں کے غلبہ کے وقت کارگزار سپاہیوں کا تھوڑا ساتر در اس قدر معتبر اور نمایاں ہوتا ہے کہ دشمنوں کے شر سے امن کی حالت میں بہت سا تردد ویسا نہیں ہوتا ۔

اے فرزند ! انسان کے پیدا کرنے سے جو خلاصہٗ موجودات ہے صرف کھیل کود اور کھانا سونا مقصود نہیں ۔ بلکہ اس سے مقصود بندگی کے وظیفوں کو آدا کرنا ۔ ذلت و انکسار و عجز و احتیاج و التجا اور خدائے تعالیٰ کی جناب میں گریہ و زاری کرتا ہے۔ وہ عبادات جن سے شرعِ محمد صلى الله عليه وسلم ناطق ہے اور ان کے آدا کرنے سے مقصود بندوں کے فائدے اور نفعے ہیں اور خدائے تعالیٰ کی جناب میں ان میں سے کچھ عائد نہیں جان سے احسان مند ہو کر آدا کرنی چاہئیں اور بڑی فرمانبرداری سے اوامر کو بجالانے اور نواہی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے حق تعالیٰ نے باوجود غنی مطلق ہونے کے بندوں کو اوامر و نواہی سے سرفراز فرمایا ہے ہم محتاجوں کو اس نعمت کا شکر پوری طرح ادا کرنا چاہئے اور بڑی احسان مندی سے احکام کے بجالانے میں کوشش کرنی چاہئے ۔


اے فرزند ! تجھے معلوم ہے کہ اگر دنیا داروں میں سے کوئی شخص جو ظاہری جاہ وشوکت رکھتا ہو ۔ اپنے ماتحت متعلقین میں سے کسی کو خدمت سے سرفراز فرمائے ۔ حالانکہ اس خدمت میں حکم ۔ دینے والے کا بھی نفع ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہ ماتحت اس کے حکم کو کس قدر عزیز جانتا ہے اور اس کو معلوم ہے کہ ایک بلند قد والے شخص نے یہ خدمت فرمائی ہے۔ بڑے احسان کے ساتھ بجالانی چاہئے تو پھر کیا بَلا پڑی کہ خدائے تعالیٰ کی عظمت اس شخص کی عظمت سے کم نظر آتی ہے کہ خدائے تعالٰی کے احکام بجالانے میں کوشش نہیں کی جاتی شرم کرنی چاہئے اور خواب خرگوش سے اپنے آپ کو بیدار کرنا چاہئے ۔ خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بجا نہ لا نا دو باتوں سے خالی نہیں ۔ یا شرعی اخباروں کو جھوٹ جانتا ہے اور یقین نہیں کرتا ۔ یا خدائے تعالیٰ کی عظمت وشان دنیا داروں کی عظمت کی نسبت بہت حقیر نظر آتی ہے اس امر کی برائی اچھی طرح معلوم کرنی چاہئے ۔

اے فرزند ! جس شخص کا جھوٹ کئی دفعہ تجربہ میں آچکا ہو وہ اگر کہہ دے کہ دشن غلبہ پا کر فلاں قوم پر چھاپہ ماریں گے تو اس قوم کے عقلمند اپنی حفاظت کے در پے ہو جائیں گے اور اس مصیبت کے دور کرنے کا فکر کریں گے ۔ حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ وہ مخبر جھوٹ سے متہم ہے لیکن کہتے ہیں کہ خطرہ کے گمان کے وقت عقلمندوں کے نزدیک احتراز لازم ہے۔

مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے مبالغہ کے ساتھ آخرت کے عذاب سے آگاہ کیا ہے لیکن کچھ اثر نہیں ہوتا کیونکہ اگر اثر ہو تو اس کے دفعہ کرنے کا فکر کریں۔ حالانکہ اس سے دفعہ کرنے کا علاج بھی مخبر صادق صلى الله عليه وسلم نے بتلا دیا ہے پس یہ کیا ایمان ہے کہ مخبر صادق صلى الله عليه وسلم کی خبر اس جھوٹے کی خبر جتنا بھی اعتبار نہیں رکھتی ۔ صرف ظاہری اسلام نجات نہیں بخشتا یقین حاصل کرنا چاہئے یقین کجا کہ ظن بھی نہیں ہے بلکہ وہم بھی نہیں ہے کیونہ عقلمند خطرے کے وقت وہم کا بھی اعتبار کر لیتے ہیں اور ایسا ہی حق تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ : اللہ دیکھنے والا جو تم عمل کرتے ہو ۔

باوجود اس عمل کے برے برے فعل سرزد ہوتے ہیں مگر جانیں کہ کوئی حقیر شخص ان عملوں سے خبر دار ہے تو ہرگز برا فعل اس کی نظر کے سامنے نہ کریں۔

پس ان کا حال دو حالت سے خالی نہیں یا حق تعالیٰ کی خبر کا یقین نہیں کرتے یا حق تعالیٰ کے واقف ہونے کا اعتبار نہیں کرتے تو خود ہی بتلانا چاہئے کہ اس قسم کے فعل ایمان سے ہیں یا کفر سے پس اس فرزند پر لازم ہے کہ از سر نو ایمان لائے۔


آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے جَدَدُو آ إِيْمَانَكُمْ بِقَوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا لله، یعنی لا الہ الا الله کے کہنے سے اپنے ایمان کو تازہ کرو اور خدا تعالیٰ کی ناپسند باتوں سے از سر نو خالص توبہ کروجن کاموں سے منع فرمایا ہے اور ان کو حرام بتلایا ہے بچو ۔ پنج وقتی نماز کو جماعت سے آدا کرو اور اگر تہجد کے لئے رات کا جاگنا حاصل ہو جائے تو زہے سعادت اور مال کی زکوۃ آدا کرنا بھی ارکان اسلام میں سے ہے اس کو بھی ضروری آدا کرو اور اس کے آدا کر نے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال سے جس قدر فقراء کا حق ہے سال کے حساب جدا کریں اور زکوۃ کی نیت پر نگاہ رکھ کر تمام سال میں زکوۃ کے مصارف میں خرچ کریں۔ اس طریق سے ہر مرتبہ زکوۃ کے ادا کرنے کی نئی نیت کرنا لازم نہیں ہے۔ ایک ہی دفعہ کی نیت کافی ہے معلوم ہے کہ تمام سال میں کس قدر فقرا ء اور مستحقین پر خرچ کرتے ہیں لیکن چونکہ اس میں زکوۃ کی نیت نہیں وہ کسی حساب میں نہیں اور صورت مذکورہ بالا میں زکوۃ بھی ذمے سے ادا ہو جاتی ہے اور نا مناسب خرچ کے بھی خلاصی مل جاتی ہے اور اگر بالفرض اس قدر تمام سال میں فقہاء پر خرچ نہ ہو اور کچھ باقی بیچ رہے تو اس کو اسی طرح اپنے مال سے جدا رکھیں ہر سال اسی طرح عمل کریں جب فقرا کا مال جدا ہوتا ہے۔ اگر آج اس کے ادا کرنے کی توفیق نصیب نہ ہو تو شاید کل توفیق حاصل ہو جائے۔


اے فرزند ! چونکہ نفس بالذات بخیل ہے اور احکام الہی کے بجالانے میں سرکش ہے اس واسطے بات صرفہ اور مبالغہ سے کہی جاتی ہے ورنہ مال و ملک سب خدائے تعالیٰ کا ہے اس کی کیا مجال ہے کہ اس میں دیر کرے۔ چاہئے کہ بڑی احسان مندی سے ادا کریں اور ایسے ہی تمام عبادات میں اپنے آپ کو معاف نہ رکھیں ۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بڑی کوشش کریں کہ کسی کا حق اپنے ذمے نہ رہ جائے ۔ اب اس کا حق ادا کرنا آسان ہے نرمی اور چاپلوسی سے بھی رفع ہوسکتا ہے اور آخرت میں کام مشکل ہے کوئی علاج نہ ہوگا۔ احکام شرعی علمائے آخرت سے پوچھنے چاہئیں کیونکہ ان کی بات کی بڑی تاثیر ہے شاید کہ ان کے دم کی برکت سے ان کے عمل کرنے کی توفیق حاصل ہو جائے اور علمائے دنیا سے جنہوں نے علم کو مال و جاہ کا وسیلہ بنایا ہے دور رہنا چاہئے ہاں اگر کوئی پرہیز گار عالم نہ ملے تو بقدر ضرورت ان سے ملنا ضروری ہے۔ وہاں میاں حاجی محمد اثرہ علمائے دیندار میں سے ہیں اور شیخ علی اثرہ کو تم خود جانتے ہی ہو ۔ غرض ان ہر دو بزرگواروں کا وجود اس علاقہ میں غنیمت ہے مسائل کی تفتیش میں ان کی طرف رجوع کرنا مناسب ہے۔

اے فرزند! ہم فقرا کو دنیا دار دولت مندوں سے کیا نسبت کہ ان کے نیک و بد کی نسبت گفتگو کریں شرعی نصیحتیں اس بارے میں پورے اور کامل طور پر وارد ہوئی ہیں ۔ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ،کامل دلیل اللہ ہی کے ہاں ہے۔

لیکن جب اس فرزند نے از روئے توبہ کے فقرا کی طرف رجوع کیا تھا۔ اسی نسبت کے سبب اکثر اوقات دلی توجہ اس فرزند کے حال پر ہوتی رہتی ہے اور وہی توجہ اس گفتگو کا باعث ہوئی ہے میں جانتا ہوں کہ یہ سب نصیحتیں اور مسئلے اس فرزند کے کانوں میں پہنچے ہوئے ہوں گے۔ لیکن مقصود عمل ہے نہ صرف علم ۔ وہ بیمار صرف اپنی مرض کی دوا کا علم رکھتا ہے جب تک اس دوا کو نہ کھائے گا صحت نہ پائے گا صرف دوا کا جاننا فائدہ نہ کرے گا۔ یہ سب مبالغہ اور اصرار عمل کے لئے ہے علم خود حجت کو درست کر لیتا ہے۔


آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے اَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَاباً عَالِمٌ لِم يَنْفَعَهُ اللهُ يَعْلَمه: سب لوگوں میں سے بڑھ کر عذاب کا مستحق وہ عالم ہے جس کو اپنے علم سے کچھ نفع نہیں ۔

اے فرزند ! جان لے کہ پہلی انابت نے جمعیت والوں کی صحبت حاصل نہ ہونے کے باعث اگرچہ کچھ فائدہ نہ دیا ہوگا لیکن اس فرزند کے جو ہر استعداد کے نفیس ہونے کی دیتی ہے۔ امید ہے کہ حق تعالی اس انابت کی برکت سے آخر اپنی مرضیات کی توفیق عطا کرے گا اور اہل نجات میں سے بنا دے گا۔


بہر حال اس گروہ کی محبت کا رشتہ ہاتھ سے نہ دیں اور ان لوگوں کے آگے التجا اور عاجزی کرتے رہیں اور منتظر رہیں کہ حق تعالیٰ اس گروہ کی محبت کے باعث اپنی محبت سے مشرف فرمائے اور پوری طرح اپنی طرف کھینچ لے اور ان جنجالوں سے بالکل آزاد کر دے۔


عشق آشعله است کوچوں برفروخت
ہر کہ جز معشوق باقی جمله سوخت

تیغ لا در قتل غیر حق براند
در نگرزان پس که بعد لاچه ماند


ماند الا الله باقی جمله رفت
شاد باش اے عشق شرکت سوز درفت


ترجمه:
عشق کی آتش کا شعلہ اٹھا
ما سوا معشوق سب کچھ جل گیا


تیغ لا سے قتل غیر حق کیا
دیکھ اس کے بعد پھر کیا رہ گیا

رہ گیا اللہ باقی سب فنا
مرحبا اے عشق تجھ کو مرحبا

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا