مکتوب 74
آیت کریمہ فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِه کی تاویل اور آیہ کریمہ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ کے بیان اور انسان کامل کی خلافت کے بیان میں کہ اس کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کو تمام اشیاء کا قیوم بنادیتے ہیں اور وہ ظالم لنفسہ ہے اور مقتصد کو ندیم اور خلیل سے تعبیر کیا ہے اور سابق بالخیرات کو محبت و محبوب کے ساتھ جن کا سر حلقہ محمد رسول صلى الله عليه وسلم ہیں ۔ خواجہ ہاشم کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ الله ( پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ کوئی ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کر نے والا ہے
اور کوئی اعتدال پر چلنے والا اور کوئی اللہ تعالیٰ کے حکم سے خیرات میں سب سے بڑھنے والا ہے )۔ اور فرماتا ہے۔ اِنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يحْمِلْتَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظُلُومًا جَهُولًا (ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی لیکن انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا یہ بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے ) ان دونوں آیتوں کی مراداللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن ہم تاویل بیان کرتے ہیں جو ہم پر ظاہر ہوگئی۔
ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا (یا اللہ تو ہماری بھول چوک پر مواخذہ نہ کر ) جاننا چاہئے کہ إِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلى صُورَته (اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ صورت سے پاک اور برتر ہے۔ پس آدم کا اس کی صورت پر پیدا ہونا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ اگر مرتبہ تنزیہ کی صورت عالم مثال میں فرض کی جائے تو بیشک یہ صورت جامع ہوگی جس پر یہ انسان جامع موجود ہوا ہے۔
دوسری صورت کو یہ قابلیت حاصل نہیں کہ اس مرتبہ مقدسہ کی تمثال ہو سکے اور اس کا آئینہ بن سکے یہی باعث ہے کہ انسان حق تعالیٰ کی خلافت کے لائق ہوا ہے کیونکہ خلیفہ جب تک شے کی صورت پر مخلوق نہ ہو اس شے کی خلافت کا مستحق نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ شے کا خلیفہ اس کا خلف اور قائم مقام ہوتا ہے۔ چونکہ انسان رحمان کا خلیفہ بن گیا اس لیے بار امانت بھی اس کو اٹھانا پڑا ۔ لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِكِ إِلَّا مَطَايَاهُ ( بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں ) ۔ آسمان اور زمین اور پہاڑ یہ جامعیت کہاں سے لاتے کہ حق تعالیٰ کی صورت پر پیدا ہوتے اور اس کے خلافت کے لائق ہو کر بار امانت کو اٹھا سکتے ۔
محسوس ہوتا ہے کہ بالفرض اگر اس بار امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے حوالہ بھی کرتے تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے اور ان کا کچھ اثر باقی نہ رہتا۔ وہ امانت اس فقیر کے خیال میں نیابت کے طور پر تمام اشیاء کی قیومیت ہے جو انسان کامل کے ساتھ مخصوص ہے یعنی انسان کامل کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کو خلافت کے حکم سے تمام اشیاء کا قیوم بنا دیتے ہیں اور تمام مخلوق کو تمام ظاہری باطنی کمالات کا افاضہ اور بقاء اسی کے ذریعے پہنچاتے ہیں اگر فرشتہ ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ متوسل ہے اور اگر جن وانس ہے تو وہ بھی اسی کے ساتھ وسیلہ پکڑتا ہے۔
غرض حقیقت میں تمام اشیاء کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے اور سب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ اس امر کو جانیں یا نہ جائیں ۔ ان كَانَ ظَلُومًا یعنی اپنی جان پر یہاں تک ظلم کرتا ہے کہ اپنے وجود اور توابع وجود کا کوئی نام و نشان ا ا جبکہ باقی نہیں چھوڑتا ۔ واقعی جب تک اس طرح کا حکم نہ کرے بار امانت کے لائق نہیں ہو سکتا۔ جھوا ۔ ۔ ۔ جاہل ہے کہ اس کو اپنے مطلوب کا علم و ادراک نہیں بلکہ ادراک سے عاجز ہونا اور علم سے جاہل ہونا اس کا مقصود ہے۔ یہ عجز و جہل اس مقام میں کمال معرفت ہے کیونکہ سب سے زیادہ جاہل اس مقام میں سب سے زیادہ عارف ہوتا سے اور جو سب سے زیادہ عارف ہوگا وہی بار امانت کے لائق ہوگا۔ یہ دونوں صفیں گویا بار امانت
کے اٹھا لینے کا باعث ہیں۔ یہ عارف جو اشیاء کی قیومیت کے مرتبہ سے مشرف ہوا ہے وزیر کا حکم رکھتا ہے۔ جس کی طرف تمام مخلوقات کے ضروری کام اور معاملات راجع ہیں۔ انعام اگر چہ بادشاہ کی طرف سے ہیں لیکن وزیر کے ذریعے سے پہنچتے ہیں ۔ اس دولت کے رئیس ابوالبشر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام میں یہ مرتبہ اصلی طور پر اولوالعزم پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے یا ان لوگوں کے ساتھ جن کو ان بزرگواروں کی وراثت تبعیت کے طور پر اس دولت سے مشرف فرمائیں۔
بر کریماں کار ہا دشوار نیست
ترجمہ: کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام
وارثان کتاب میں سے پہلا گروہ جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہے یہی ظالم لنفسہ ہیں جو منصب وزارت اور قیومت سے مشرف ہیں ان برگزیدہ لوگوں میں سے دوسرا گروہ جن کو مقتصد سے تعبیر فرمایا ہے وہ لوگ ہیں جو دولت خلت سے مشرف ہیں اور صاحب سر اور اہل مشورت ہیں۔ اگر چہ بادشاہی کا معاملہ اور کاروبار وزیر کے متعلق ہے، لیکن خلیل یعنی دوست ہمنشین اور غمخوار اور انہیں ہوتا ہے۔ یعنی خلیل اپنے آرام کے لیے ہے اور وزیر دوسروں کے
کاروبار کے لیے شَتَّانَ مَا بَيْنَهُمَا ( ان دونوں میں بہت فرق ہے )
اس مقام عالی یعنی خلت کے سر حلقہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ۔ یا وہ لوگ جن کو اس مقام عالی سے مشرف فرمائیں۔ مقام خلت کے اوپر مقام محبت ہے۔ جس مقام اعلیٰ کے ساتھ تیسرے گروہ کے لوگ جو سابق بالخیرات ہیں۔ مشرف ہوئے ہیں۔ یا روندیم اور ہوتا ہے اور محبت و محبوب اور وہ اسرار و معاملات جو محبت و محبوب کے درمیان گزرتے ہیں ۔ یا رو ندیم کا وہاں کچھ دخل نہیں ۔ اگر چہ کمال الفت وانس کے وقت محبت کے خفیہ اور پوشیدہ اسرار کو جلیل القدیر خلیل کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں اور اس کو محبت و محبوب کے اسرار کا محرم بنا سکتے ہیں۔ محبوں کے سر حلقہ حضرت کلیم اللہ علیہ الصلوۃ والسلام میں اورمحبوبوں کے سر گر وہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ۔
یا ان بزرگواروں کی وراثت اور تبعیت سے جس کسی کو ان دو مقاموں سے مشرف فرمائیں اور وہ مقامات جو مقام محبت سے اعلیٰ ہیں ۔ اس فقیر کے کسی مکتوب میں مذکور ہو چکے ہیں۔ ان میں بھی صدرنشین محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہیں ۔ وہ سب مقامات سابقین کے مقام میں داخل ہیں۔ جو وارثان کتاب میں سے تیسرے گروہ کو نصیب ہیں ۔
رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهِيَئْ لَنَا مِن أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کاموں میں ہماری بھلائی نصیب کر ) و السَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعُ
الهدى – سلام اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی ۔