2

مکتوب 77: اس بیان میں کہ خدائے بے مثل و بے مانند کی عبادت کب حاصل ہوتی ہے


مکتوب 77

اس بیان میں کہ خدائے بے مثل و بے مانند کی عبادت کب حاصل ہوتی ہے اور اس کے مناسب بیان میں جباری خاں کی طرف صادر فرمایا ہے:۔


الحَمدُ لِلَّهِ وَ سَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَی ۔ اللہ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو

بعد از خدائ آنچه پرستند بیچ نیست
بیدولت است آنکه بہیچ اختیار کرد

ترجمه : خدا کو چھوڑ کر جو پوجتے ہیں و باطل ہے
جو پوجے ہیچ و باطل کو وہی بد بخت و جاہل ہے


خدائے بے مثل و بے مانند کی عبادت اس وقت میسر ہوتی ہے جب کہ تمام ماسویٰ اللہ کی غلامی سے آزاد ہو کر توجہ کا قبلہ ذات احدیت کے سوا اور کچھ نہ رہے اور اس توجہ کا مصداق حق تعالیٰ کے انعام اور ایلام کا برابر ہونا ہے بلکہ اس مقام کے حاصل ہونے کی ابتدا میں انعام کی نسبت رنج والم زیادہ مرغوب معلوم ہوتا ہے۔ اگر چہ آخر کار تفویض تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے پہنچتا ہے اس کو بہتر اور مناسب جانتا ہے جو عبادت رغبت اور خوف سے تعلق رکھتی ہے


وہ در حقیقت اپنی عبادت ہے اور اس سے مقصود اپنی نجات اور سرور ہے۔

تا تو در بند خویشتن باشی
عشق گوئی دروغ زن باشی

ترجمہ: جب تلک تجھ کو اپنا ہی ہے خیال
دعوی عشق تیرا سب ہے محال


اس دولت کا حاصل ہونا فنائے مطلق پر وابستہ ہے اور یہ توجہ محبت ذاتیہ کا نتیجہ اور ولایت خاصہ محمدی صلى الله عليه وسلم کے ظہور کا مقدمہ ہے اور اس بڑی نعمت کا حاصل ہونا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی کمال تابعداری پر موقوف ہے کیونکہ ہر نبی کی شریعت جو از راہِ نبوت اس کو عطا فرمائی ہے ۔ اس کی ولایت کے مناسب ہے کیونکہ ولایت میں کلی طور پر حق تعالیٰ کی طرف توجہ ہے اور جب نبوت کے درجے میں لاتے ہیں تو وہی نور ساتھ آجاتا ہے اور اسی کمال کو خلق کی توجہ کے ساتھ جمع کرتا ہے اور مقام نبوت کے کمالات کے حاصل ہونے کا سبب بھی وہی نور ہے۔ اسی واسطے بزرگوں نے کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے کیونکہ ہر پیغمبر کی شریعت اس کی ولایت کے مناسب ہوتی ہے اور اس شریعت کی تابعداری بھی اس ولایت تک پہنچنے کو مستلزم ہے اور اگر سوال کریں کہ آنسرور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کے بعض تا بعد اروں کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ولایت سے کچھ حصہ نہیں بلکہ دوسرے انبیاء کے قدم پر ہیں اور ان کی ولایت سے حصہ رکھتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت تمام شریعتوں کی جامع ہے اور جو کتاب حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی اس میں تمام آسمانی کتابیں شامل ہیں ۔ پس اس شریعت کی تابعداری گویا تمام شریعتوں کی تابعداری ہے۔ پس تابعدار اپنی استعداد کے موافق انبیا میں سے کسی ایک کے ساتھ نسبت رکھتا ہے کہ جس کی ولایت کو حاصل کر لیتا ہے اور اس میں کچھ ڈر نہیں ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ولایت تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ولایتوں پر حاوی ہے۔

پس ان ولایتوں تک پہنچنا اس ولایت خاصہ کے اجزاء میں سے کسی ایک جزو تک پہنچنا ہے اور اس ولایت تک نہ پہنچنے کا باعث حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی کمال متابعت میں کمی کرنا ہے اور کمی کیلئے کئی درجے ہیں ۔ اسی لئے درجات ولایت میں تفاوت حاصل ہو جاتا ہے اور اگر کمال اتباع میسر ہو جائے تو اس ولایت تک پہنچنا ممکن ہے۔ اعتراض اس وقت وارد ہوتا ہے جب کہ دوسرے نبیوں کی شریعتوں کے تابعداروں کو ولایت خاصہ محمدی صلى الله عليه وسلم حاصل ہوتی اور جب ایسا نہیں تو اعتراض بھی کوئی نہیں ۔ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَنْعَمُ عَلَيْنَا وَ هَدَانَا إِلَى الْقِرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ وَالدِينِ الْقَوِيمِ: اللہ کی حمد ہے جس نے ہم پر بڑا احسان کیا اور سیدھے راستہ اور مضبوط دین کی طرف ہدایت کی ۔


صراط مستقیم اسی مضبوط راستے اور شریعت روشن سے مراد ہے۔ إِنَّكَ لِمَنِ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمُ اسی معنی پر دلیل ہے ۔

رَزَقْنَا اللَّهُ وَ إِيَّاكُمْ كَمَالَ إِتَّبَاعِ شَرِيعَةِ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلامُ بِحُرْمَةِ كُمّلَ إِتَّبَاعِهِ وَ مُعَظَّمِ اَوْلِيَائِهِ رِضْوَانُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْهِمْ اَجْمَعِینَ ۔ آمین

حق تعالیٰ آپ کو اور ہم کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں اور بزرگ اولیاؤں کے طفیل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی کمال تابعداری عطا فرمائے ۔ آمین

حامل رقیمہ ہذا ان حدود کی طرف آنے والا تھا اس لئے چند باتوں سے محبت کے سلسلہ کو ہلا نے والا ہوا۔ وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ سُبْحَانَهُ لَدَيْكُمُ الله تعالیٰ کی رحمت و سلام تم پر ہو۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا