0

مکتوب 77: ایک عریضہ کے جواب میں جس میں کلام صوفیاء پر اعتراض کیے ہوئے تھے


مکتوب 77

ایک عریضہ کے جواب میں جس میں کلام صوفیاء پر اعتراض کیے ہوئے تھے اور آخر مکتوب میں لکھا تھا کہ احکام شرعیہ میں سے ہر ایک حکم ایک دریچہ ہے۔ جو شہر مقصود تک پہنچانے والا ہے اور دوسرے استفساروں کے جواب میں مولاناحسن برکی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔


برادرم حسن ( کہ خدا اس کے حال کو اچھا کرے) کا صحیفہ شریفہ آیا تشرع واستقامت کا حال پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ ) آپ نے لکھا تھا کہ وہ سلوک جو مشہور ہے اور سالکوں کا معتقد جو ہمارا مفہوم ہے یہ ہے کہ مبتدی کو ذکر کرنا چاہئے تا وقتیکہ دل گویا اور ذاکر ہو جائے ۔ پھر یہاں تک کہ ذکر کو چھوڑ کر الہامات و تجلیات کا محل ہو جائے اور سالک مقام فنا تک پہنچ جائے ۔ جو ولایت کا قدم اول ہے اور صوفیہ نے کہا ہے کہ فضا یہ ہے کہ سالک کی دید و دانش سے مسمی بالغیر دور ہو جائے اور واجب تعالی کے بغیر سالک کی دید و دانش میں کچھ نہ رہے جس کو شہود و مشاہدہ وغیرہ بھی کہتے ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ سالک اپنے زعم میں حق تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور سمی بالغیر کو نہیں دیکھتا۔ اور دو بین کو مشرک طریقت کہتے ہیں۔ اور آپ نے لکھا ہے کہ یہ معارف وغیرہ فقیر کو بیقرار کر دیتے ہیں کیونکہ اگر ان کا مقصود یہ ہے کہ حق تعالی کو دنیا میں بصر و بصیرت سے دیکھا جاتا ہے تو پھر اگر اس شہود اور روایت کا شعور رکھتے ہیں۔ تو یہ بھی مشرک طریقت ہیں اور اگر یہ شعور نہیں رکھتے تو پھر خبر کس کی دیتے ہیں اور کس طرح دیتے ہیں۔ اور آپ نے لکھا تھا کہ جو کچھ دیکھتے ہیں خواہ تجلی صوری ہو یا معنوی خواہ نوری وغیرہ اور اس مرئی کو حق تعالیٰ کی ذات جانتے ہیں اور سمی بالغیر کو اس کا ظہور جانتے ہیں۔

اس فقیر کے نزدیک بے حاصل اور دور از کار ہے اور آیت کریمہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَئی کے برخلاف ہے۔ آیت کریمہ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ اس مطلب پر گواہ ہے۔

پس یہ لوگ کیا دیکھتے ہیں اور کیا جانتے ہیں جو کہتے ہیں کہ حق تعالی کے سوا کسی کو نہ ہم دیکھتے
ہیں نہ جانتے ہیں جس کا نام انہوں نے شہود و مشاہدہ رکھا ہے اور یہ سب فکر و اندیشہ جواہل وعیال کی
تدبیر میں کرتے ہیں غیر ہے یا نہیں ۔ آپ کو واضح ہو کہ یہ سب بیہودہ اعتراض اور زبان درازیاں میں جو آپ نے مشائخ طریقت قدس سرہم پر کی ہیں۔ ان کا باعث یہ ہے کہ آپ نے ان بزرگواروں کی مراد کو نہیں سمجھا۔ توحید شہودی جس کے معنے ہیں ایک دیکھنا اور جو ماسوئی کے نسیان پر وابستہ ہے ان بزرگواروں کے نزد یک طریقت کی ضرورت میں سے ہے۔ جب تک یہ حاصل نہ ہو۔ اغیار کی گرفتاری سے خاصی نہیں ہوتی اور آپ اس دولت اور دولت والوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔

شہود روایت جوان بزرگواروں کی عبارات میں واقع ہے۔ اس سے مراد حضور پیچونی ہے جو مرتبہ تنزیہہ کے مناسب اور عالم چون کے ادراک سے باہر ہے اور یہ دولت حضور دنیا میں باطن کے ساتھ مخصوص ہے۔ ظاہر کو ہر وقت دو بینی سے چارہ نہیں اسی واسطے کہتے ہیں کہ جس طرح عالم کبیر میں مشرک و موحد ہے اسی طرح عالم صغیر میں بھی مشرک و موحد ہے۔ کامل کا باطن ہر وقت موحد ہے اور اس کا ظاہر شرک۔ یعنی کامل کا باطن ہر وقت خداوند تعالیٰ کی طرف لگارہتا ہے اور اس کا ظاہر اہل وعیال کی تدبیر میں اس میں کوئی ڈر نہیں یہ اعتراض بے سمجھی کے باعث ہے۔ آپ کو اس قسم کی باتیں نہ کرنی چاہئیں اور حق تعالی کی غیرت سے ڈرنا چاہئے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے مدعی آپ کو اس فتنہ و فساد پر آمادہ کرتے ہیں آپ کو بزرگوں کا لحاظ کرنا چاہئے۔ اگر آپ ان مدعیوں کی بنی بنائی اور من گھڑت باتوں پر اعتراض کرتے تو بجا تھا لیکن وہ امر جو قوم کے نزدیک مقرر اور طریقت میں ضروری ہے اس پر اعتراض کرنا نا مناسب ہے۔ آپ نے فقیر کے رسالوں اور مکتوبات میں دیکھا ہے کہ تو حید شہودی کی نسبت کیا کچھ لکھا ہے اور اس کو طریقت کی ضروریات سے مقرر کیا ہے۔

آپ کو چاہئے تھا کہ اس کے معنے دریافت کرتے اور ادب سے سوال کرتے ۔ یہ پہلا پھول ہے جو مولانا احمد علیہ الرحمتہ کی جدائی کے بعد کھلا ہے۔ مولانا کی زندگی میں اس قسم کی باتیں آپ سے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں ۔ خیر اچھا ہوا کہ آپ نے لکھا اور آپ کو آگاہی ہوئی۔ آئندہ بھی جو کچھ ظاہر ہوتار ہے لکھتے رہا کریں اور صحت وسقم کا ملاحظہ نہ کیا کریں۔ کیونکہ اگر صحیح ہو گا تو خوشی کا باعث ہے اور اگر سقم ہوگا تو تنبیہ کا باعث ہو گا۔ بہر صورت لکھنے میں سستی نہ کیا کریں ۔ سال کے بعد آپ کا خط قافلہ کے براہ آتا ہے سال میں ایک بارتو تصیحتوں کا لکھنا ضروری ہے جب تک آپ نہ لکھیں نہ پوچھیں تب تک گفتگو کا راستہ نہیں کھلتا۔


آپ نے پوچھا تھا کہ قلب ظاہر کی قسم سے ہے یا باطن سے ۔ عارف کے ظاہر و باطن کا حال ایک مکتوب میں لکھا ہوا ہے۔ ملا عبد اٹھی کو لکھوں گا کہ اس کی نقل آپ کو بھیج دے آپ وہاں سے ملاحظہ کر لیں۔


نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ طریق جو تجلیات و کیفیات کے بغیر ہے اس طریق کے منتہی و
متوسط کی شناخت کا طریق کیا ہے۔ آپ کو واضح ہو کہ اگر یہ سالک جس کو اپنے احوال کا علم نہیں۔ شیخ کامل مکمل ، راہ داں، راہ میں کی خدمت میں ہے تو اس کے حال پر شیخ کا علم ہی اس کے لیے کافی ہے اس کے بتلانے سے انتہاء، وتوسط کو معلوم کریگا۔

نیز اگر وہ شیخ اس کے خلق کے ارشاد کے لیے ایک قسم کی اجازت دے دے تو مریدوں کے احوال اس کے کمالات کے آئینے ہوں گے۔ جن میں اپنے نقص و کمال کو دیکھ لے گا۔ انتہا کے پہچاننے کے لیے دوسرا نشان یہ ہے کہ سالک کو حق تعالی کے سوا کسی سے تعلق نہیں رہتا اور اس کا سینہ تمام ماسوا کے تعلقات سے خالی وصاف ہو جاتا ہے۔ نہایت کے بہت سے مرتے ایک دوسرے کے اوپر ہیں مگر نہایت میں پہلا قدم یہی ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔

واللہ سُبْحَانَهُ الْمُوَقِّقُ .
نیز آپ نے لکھا تھا کہ وہ معارف جو اس بے سروسامان کوتسلی دیتے ہیں ، معارف شریعہ ہیں گویا احکام شرعیہ میں سے ہر ایک حکم در بچہ ہے جو شہر مقصود تک پہنچانے والا اور اس شہر بے نشان کا پتہ بتانے والا ہے اور بیت مد نظر ہے۔

مابسفر می رویم عزم تماشا کراست
ما براد می رویم کز همه عالم و راست

ترجمہ: ہم میں یہاں مسافر دیکھیں کیا تماشا جاتے ہیں اس طرف جو عالم سے ہے نرالا

آپ کی یہ معرفت اصلی اور بہت اعلیٰ اور بہت امید بخشنے والی ہے۔ اس معرفت کے مطالبہ نے بڑا خوش کیا۔ حتی کہ مکتوب کی پہلی پراگندگی کو بھی دور کر دیا ۔ حق تعالیٰ اس راہ سے آپ کو منزل مقصود تک پہنچائے ۔


نیز آپ نے پوچھا تھا کہ بعض مرد اور عور تیں آ آ کر طریقہ سیکھنے کی التماس کرتے ہیں لیکن . اس کھانے پینے سے جو سود سے حاصل ہو۔ پر ہیز نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم حیلہ شرعی سے اس کو درست کر لیتے ہیں ان کو طریقت کی تعلیم دینے کی اجازت ہے یا نہیں۔ آپ ان کو طریقہ سکھائیں

اور محرمات سے بچنے کی ترغیب دیں۔ امید ہے کہ طریقہ کی برکت سے اس شبہ سے نکل آئیں گے۔ نیز آپ نے ان دو سفید نشانوں کے بارے میں پوچھا تھا جو مشرق کی طرف ایک دوسرے کے پیچھے ظاہر ہوئے تھے ۔

یاروں کے استفسار کے بعد اس بارے میں بھی ایک مکتوب لکھا ہے ۔ مالا عبدالحئی کو کہا جائے گا۔ اس کی نقل انشاء اللہ آپ کو بھی ارسال کر دے گا ۔۔ نیز آپ نے پوچھا تھا کہ کلام اللہ ختم کرنا اور نماز نفل کا پڑھنا اور تہی تہلیل کرتا اور اس کا ثواب ماں باپ یا استاد یا بھائیوں کو بخشتا بہتر ہے یا کسی کو نہ بخشا بہتر ہے۔ واضح ہو کہ بخشنا بہتر ہے کیونکہ اس میں اپنا بھی نفع ہے اور غیر کا بھی اور عجب نہیں کہ اس عمل کو دوسروں کے طفیل قبول کر لیں اور یہ بخشنے میں اپنا ہی نفع ہے۔ والسلام ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا