2

مکتوب 80: اس بیان میں کہ تہتر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ اہلسنت و جماعت کا فرقہ ہے


مکتوب 80

اس بیان میں کہ تہتر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ اہلسنت و جماعت کا فرقہ ہے اور بدعتی فرقوں کی برائی اور اس کے مناسب بیان میں مرزا فتح اللہ خاں حکیم کی طرف لکھا ہے ۔

اللہ تعالیٰ شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ پر استقامت بخشے ۔ کار نیست غیر ایں ہمہ بیچ تہتر فرقوں میں سے ہر ایک فرقہ شریعت کی تابعداری کا مدعی ہے اور اپنی نجات کا دعوی کرتا ہے۔ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ان کے حال کے شامل ہے لیکن وہ دلیل جو پیغمبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے ان متعددفرقوں میں سے ایک فرقہ ناجیہ کی تمیز کیلئے بیان فرمائی ہے۔ یہ ہے۔ الَّذِينَ هُمْ عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ وَاَصْحَابِی، ایک فرقہ ناجیہ وہ لوگ ہیں جو اس طریق پر ہیں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔

اصحاب کا ذکر صاحب الشریعت علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر کے کافی ہونے کے باوجود اس مقام میں اسی واسطے ہو سکتا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ میرا طریق بعینہ اصحاب کا طریق ہے اور نجات کا راستہ صرف ان کے طریق کی اتباع سے وابستہ ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَمَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ الله : پس رسول اللہ کی اطاعت عین حق کی اطاعت ہے اور ان کی مخالفت بعینہ حق تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔


جن لوگوں نے خدائے تعالیٰ کی اطاعت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کے برخلاف تصور کیا ہے حق تعالیٰ نے ان کے حال کی خبر دی ہے اور ان پر کفر کا حکم لگایا ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔

يُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا: ارادہ کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق ڈالیں اور کہتے ہیں کہ بعض کے ساتھ ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض سے ہم انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان راستہ اختیار کرلیں۔ یہی لوگ پکے کافر ہیں ۔

پس مذکورہ بالا صورت میں اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریق اور تابعداری کے برخلاف حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تابعداری کا دعویٰ کرنا باطل اور جھوٹا ہے بلکہ حقیقت میں وہ اتباع رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی عین نا فرمانی ہے پس اس مخالف طریق میں نجات کی کیا مجال ہے۔ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيءٍ إِلَّا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ ) اور گمان کرتے ہیں یہ کہ وہ اوپر کسی چیز کے ہیں ، خبر دار ہو تحقیق وہی ہیں وہ جھوٹے ) ان کے حال کے موافق ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ فرقہ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی تابعداری کو لازم پکڑا ہے ۔ اہلسنت و جماعت ہی ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کی کوشش کو مشکور فرمائے ۔


پس یہی لوگ فرقہ ناجیہ ہیں کیونکہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کو طعنہ لگانے والے ان کی اتباع سے محروم ہیں جیسا کہ شیعہ اور خارجیہ اور معتزلہ خود مذہب نیا رکھتے ہیں۔ ان کا رئیس واصل بن عطا، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ہے جو ایمان اور کفر کے درمیان واسطه ثابت کرنے کے باعث امام رحمتہ اللہ علیہ سے جدا ہو گیا اور امام رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے حق میں فرمایا اغتزل غنا سے جدا ہو گیا ۔ اسی طرح باقی فرقوں کو قیاس کرلو اور اصحاب کے حق میں طعنہ کرنا در حقیقت پیغمبر خدا صلى الله عليه وسلم کو طعنہ لگاتا ہے ۔ مَا آمَنَ بِرَسُولِ اللهِ مَنْ لَّم يُؤَقَرُ أَصْحَابَہ جس نے اصحاب رضی اللہ عنہ کی عزت و تعظیم نہیں کی ، وہ رسول اللہ پر ایمان نہیں لایا کیونکہ ان کا جسدان کے صاحب کے جسد تک نوبت پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس برے اعتقاد سے بچائے اور نیز جو احکام قرآن وحدیث سے ہم تک پہنچتے ہیں وہ انہی کی نقل کے وسیلہ سے ہیں جب یہ مطعون ہوں گے تو ان کی نقل بھی مطعون ہوگی کیونکہ یہ نقل ایسی نہیں کہ بعض کے سوا بعض کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ سب کے سب عدل اور صدق اور تبلیغ میں برابر ہیں۔ پس ان میں سے کسی ایک کا طعن دین کا طعن کو مستلزم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے اور اگر طعنہ لگانے والے یہ کہیں کہ ہم بھی اصحاب کی متابعت کرتے ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ ہم سب اصحاب کے تابع ہوں بلکہ ان کی راؤں کے متضاد ہونے اور مذہبوں کے اختلاف کے باعث سب کی تابعداری ممکن نہیں تو اس کا جواب ہم کہتے ہیں کہ بعض کی متابعت اس وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جبکہ بعض کا انکار اس کے ساتھ شامل نہ ہو ورنہ بعض کا انکار کرنے سے بعض کی متابعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے ثلثہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عزت تعظیم کی ہے اور ان کو اقتداء کے لائق جان کر اس سے بیعت کی ہے۔ پس خلفائے ثلثہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا انکار کرنا اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی متابعت کا دعوی کرنا محض افتداء ہے بلکہ وہ انکار در حقیقت حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انکار ہے اور ان کے افعال و اقوال کا صریح رد ہے اور تقیہ کے احتمال کو حضرت اسد اللہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دخل دینا بھی بے وقوفی ہے۔ عقل صحیح ہر گز اس کو جائز نہیں سمجھتی کہ حضرت اسد اللہ رضی اللہ عنہ باوجود کمال معرفت اور شجاعت کے خلفائے ثلثہ کے بعض کو میں سال تک پوشیدہ رکھیں اور ان کے برخلاف کچھ ظاہر نہ کریں اور منافقانہ صحبت ان کے ساتھ رکھیں ۔ حالانکہ کسی ادنیٰ مسلمان سے اس قسم کا نفاق متصور نہیں ہوسکتا۔ اس فعل کی برائی کو معلوم کرنا چاہئے کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی طرف کس قسم کی خرابی اور فریب منسوب ہوتا ہے اور اگر بفرض محال حضرت اسد اللہ رضی اللہ عنہ کے حق میں تقیہ جائز بھی سمجھیں تو وہ تعظیم و توقیر جو حضرت پیغمبر صلى الله عليه وسلم خلفائے ثلاثہ کی کرتے تھے اور ابتداء سے انتہاء تک ان کو بزرگ جانتے رہے ہیں اس کا کیا جواب دیں گے۔ وہاں تقیہ کی گنجائش نہیں ۔ حق امر کی تبلیغ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام پر واجب ہے وہاں تقیہ کو دخل دینا زندقہ تک پہنچادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلَغَ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( ۶ ۱۴۴) اے میرے رسول جو کچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو رسالت کے حق کو ادا نہ کیا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔


کفار کہا کرتے تھے کہ محمد صلى الله عليه وسلم اس وحی کو جو اس کے موافق ہے ظاہر کر دیتا ہے اور جو اس کے مخالف ہوتی ہے اسے ظاہر نہیں کرتا اور اس کو پوشیدہ رکھتا اور یہ بات ثابت ہے کہ نبی کو خطا پر مقرر رکھنا جائز نہیں ۔ ورنہ اس کی شریعت میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ پس جب خلفائے ثلاثہ کی تعظیم و توقیر کے خلاف آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے ظاہر نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کی تعظیم خطا اور زوال سے محفوظ تھی ۔

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور ان کے اعتراض کا جواب ذرا صاف طور پر کہتے ہیں کہ تمام اصحاب کی متابعت دین کے اصول میں لازم ہے اور ہرگز اصول میں اختلاف نہیں رکھتے۔ اگر اختلاف ہے تو فروغ میں ہے اور جو شخص ان میں سے بعض کو طعن کرتا ہے وہ سب کی متابعت سے محروم ہے۔ ہر چندان کا کلمہ متفق ہے ۔ مگر دین کے بزرگواروں کے انکار کی بدبختی اختلاف میں ڈال دیتی ہے اور اتفاق سے باہر نکال دیتی ہے۔ بلکہ قائل کا انکار اس کے اقوال کے انکار تک پہنچا دیتا ہے اور نیز شریعت کے پہنچانے والے سب اصحاب ہی ہیں ۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا کیونکہ سب کے سب اصحاب عادل تھے۔ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ شریعت ہم تک پہنچائی ہے اور ایسے ہی قرآن بھی ہر ایک سے کچھ نہ کچھ لے کر جمع کیا گیا ہے ۔ پس بعض کا انکار کرنا گویا اس کی تبلیغ سے بھی انکار کرنا ہے ۔ پس تمام شریعت کا انکار منکر کے مادہ میں ثابت ہے پھر کس طرح نجات اور خلاصی کی امید ہے۔


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمُ إِلَّا خِزَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِ الْعَذَابِ: اب کیا تم بعض کتابوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض انکار کرتے ہو۔ پس جو شخص تم میں سے ایسا کرتے ہیں۔ ان کی جزا سوائے اللہ کے اور کیا ہے کہ دنیا میں خوار اور ذلیل ہوں اور آخرت میں سخت عذاب کی طرف کھینچے جائیں۔

یا ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے۔ بلکہ در حقیقت جامع حضرت صدیق و حضرت فاروق اور حضرت امیر رضی اللہ عنہم کی جمع اس قرآن کے سوا ہے ۔ پس سوچنا چاہئے کہ ان بزرگواروں کا انکار فی الحقیقت قرآن کا انکار ہے۔ نعوذ باللہ ۔ ایک شخص نے اہل شیعہ کے مجتہد سے سوال کیا کہ قرآن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے۔ آپ کا اس قرآن کے حق میں کیا اعتقاد ہے۔اس نے کہا میں اس کے انکار میں مصلحت نہیں دیکھتا کہ اس کے انکار سے تمام دین درہم برہم ہو جاتا ہے۔


دیگر عاقل آدمی ہرگز قرار نہیں دیتا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اصحاب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رحلت کے روز امر باطل پر اجتماع کریں اور مقرر ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رحلت کے دن 33 ہزار اصحاب حاضر تھے ۔ جنہوں نے رضا ورغبت سے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ اتنے اصحاب کا گمراہی پر جمع ہونا محال ہے ۔ حالانکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے لا تَجْتَمَعِ أُمَّتِي عَلَى الصَّلالَةِ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہوگی ۔

اور جو توقف ابتدا میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے واقع ہوا ہے وہ اس واسطے تھا کہ اس مشورہ میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کو بلایا نہ گیا تھا چنانچہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ ما غَصْبِنَا إِلَّا لِتَاخِرُ نَاعَنِ الْمَشْوَرَةِ وَإِنَّا لِنَعْلَمُ أَنَّ أَبا بَكْرَ خَيْرٌ مِنَّا ہم اس واسطے ناراض ہوئے ہیں کہ ہم کو مشورہ میں بلایا نہیں گیا۔ ورنہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ابو بکر ہم سے بہتر ہے۔

اور ان کا نہ بلانا شاید کسی حکمت پر مبنی ہو گا۔ مثل اس کے کہ اہل بیت کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے موجود ہونے سے مصیبت کے صدمہ اوّل کے وقت تسلی ہو ۔ وغیرہ وغیر ہ اور وہ اختلاف جو اصحاب پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے درمیان واقع ہوئے تھے۔ وہ نفسانی خواہشوں سے نہ تھے ۔ کیونکہ ان کے نفس تزکیہ پا چکے تھے اور امارگی سے اطمینان کے درجے کو پہنچ چکے تھے اور ان کے سب ارادے شریعت کے تابع ہو گئے تھے ۔ بلکہ وہ اختلاف حق کے بلند کرنے کیلئے اجتہاد پر مبنی تھا۔ پس ان کے خطا کار کے لئے بھی اللہ کے نزدیک ایک درجہ ہے اور مُصِیب کے لئے خود دو درجے ثابت ہیں۔ پس زبان کو ان کے گلہ سے روکنا چاہنے اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہئے ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔ تلک دِمَاءً طَهَّرَ اللهُ عَنْهَا أَيْدِينَا فَلْتُطَهِّرَ عَنْهَا الْسِنتنا یہ ایسے خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔

اور نیز امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔ اِضْطَرَّ النَّاسُ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهُ صَلَّى اللهُ علَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَجِدُوُ تَحْتَ أدِيمِ السَّمَاءِ خَيْرٌ مِّنْ أَبِي بَكْرٍ فَوَلُّوهُ رَقَابَهُمْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگ ناچار ہو گئے ۔ پس انہوں نے آسمان کے تلے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی نہ پایا۔ پس ان کو اپنی گردنوں کا والی بنا لیا۔ یہ قول تقیہ کی نفی اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ی بیعت پر حضرت امیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رضا مندی کیلئے صریح وصاف ہے۔

بقیه مقصود یہ ہے کہ میاں سیدن ولد میاں شیخ ابوالخیر شریف خاندان سے ہے اور دکن کے سفر میں آپ کے ہمراہ بھی گیا تھا۔ آپ کی توجہ اور عنایت کا امیدوار ہے اور نیز مولا نا محمد عارف طالب علم اور بزرگ زادہ ہے۔ اس کا باپ مُلا آدمی تھا۔ مدد معاش کیلئے آیا ہے اور آپ کی توجہ کا امیدوار ہے۔

والسلام والکرام۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا