2

مکتوب 84: اس بیان میں کہ شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں


مکتوب 84

اس بیان میں کہ شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں اور اور مرتبہ حق الیقین تک پہنچنے کی علامت اس مقام کے معارف کا علوم و معارف شریعہ کے ساتھ مطابق ہونا ہے اور اس کے مناسب بیان میں سید احمد قادری کی طرف لکھا ہے:۔

حق تعالی شریعت کے راستہ پر استقامت بخشے اور ہماری ساری ہمت کو اپنی پاک جناب کی طرف پھیر کر ہم کو پورے طور پر اپنے آپ سے فانی کردے اور بالکل اپنے ماسوائے سے ہٹا لے بحرمت سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین جو میلان چشم سے پاک ہیں ۔

از هر چه میر دوسخن دوست خوش تر است
ترجمہ جو یار کاسخن ہے وہ سب سے عجیب ہے

جو کچھ کہ دوست کی نسبت کہا جاتا ہے اگر چہ اس کا سخن نہیں ہے لیکن جب اس کلام کو خدائے تعالی کی جناب کے ساتھ ایک قسم کی مناسبت ثابت ہے تو اس نسبت کو غنیمت جان کر اس بارہ میں جرأت اور زبان درازی کرتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ شریعت اور حقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ فرق صرف اجمال و تفصیل اور کشف و استدلال اور غیبت وشہادت اور تعمل و عدم تعمل کا ہے۔ وہ احکام وعلوم جو شریعت روشن کے موافق ظاہر اور معلوم ہوئے ہیں ۔ حق الیقین کی حقیقت ثابت ہونے کے بعد یہی احکام و علوم بعینہ تفصیل کے طور پر منکشف ہو جاتے ہیں اور غیب سے شہادت میں آجاتے ہیں اور کسب کا تکلف اور عمل کی بناوٹ درمیان سے اٹھ جاتی ہیں اور حق الیقین کی حقیقت تک پہنچنے کی علامت اس مقام کے علوم ومعارف کا شرعی علوم معارف کے ساتھ مطابق ہونا ہے اور اگر بال بھر بھی مخالفت ہو تو حق الیقین کی حقیقت تک نہ پہنچنے کی دلیل ہے۔ اور مشائخ طریقت میں سے جس کسی سے علم وعمل میں خلاف شریعت صادر ہوا ہے۔ وہ سکر وقت پر مبنی ہے اور سکر وقت اثنائے راہ میں واقع ہوتا ہے نہایت النہایت کے منتہوں کو سب صحو اور ہوشیاری ہے اور وقت ان کا مغلوب ہے اور حال و مقال ان کے کمال کے تابع


صوفی ابن الوقت آمد در مثال
لیک صافی فارغ است از وقت دجال

ترجمہ: صوفی وقت و حال کا پابند ہے
ایک صافی ہر گھڑی خود سند ہے

پس ثابت ہوا کہ خلاف شریعت کا صادر ہونا حقیقت کار تک نہ پہنچنے کی علامت ہے۔ بعض مشائخ کی عبارتوں میں واقع ہے کہ شریعت حقیقت کی پوست ہے اور حقیقت شریعت کا مغز ۔ یہ عبارت اگر چہ اس کلام کے بولنے والے کی بے استقامتی ظاہر کرتی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ مجمل کو مفصل کے ساتھ وہ نسبت ہے جو مغز کو پوست کے ساتھ ہے اور استدلال کشف کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسا مغز کے مقابلہ میں پوست۔ لیکن مستقیم الاحوال بزرگوار اس قسم کی موہومی عبارات کا لانا پسند نہیں کرتے اور اجمال و تفصیل اور کشف و استدلال کے سوا اور فرق نہیں بتلاتے ۔


کسی شخص نے حضرت خواجہ نقشبندی قدس سرہ سے سوال کیا کہ وہ سیر و سلوک سے مقصود کیا ہے تو فرمایا ہے معرفت اجمالی تفصیلی ہو جائے اور استدلالی کشفی بن جائے۔


رَزَقَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ الثَّبَاتَ وَالْاِسْتَقَامَةَ عَلى الشَّرِيعَةِ عِلْماً وَ عَمَلاً صَلَوَاتُ اللهُ وَ سَلَامُهُ عَلَى صَاحِبِهَا: الله تعالی ہم کو شریعت پر علمی اور عملی طور پر استقامت بخشے ۔ باقی تکلیف یہ ہے کہ حامل رقیمہ دعا شیخ مصطفی شریخی قاضی شریح کی نسل سے ہے۔ اس کے باپ دادا بڑے بزرگ تھے اور وظائف اور وجہ معاش بہت رکھتے تھے ۔ سندیں اور پروانے جمع کر کے لشکر کی طرف متوجہ ہوا ہے گزارے کے اسباب کے نہ ہونے سے تنگ ہے۔ اس کے حال پر اس طرح توجہ فرمائیں کہ اس کی جمعیت کے حاصل ہونے کا سبب ہو جائے اور بے قراری اور پراگندی سے نجات پائے ۔

زیادہ کہا تکلیف ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا