مکتوب 87
نصیحتوں کے بارہ میں فتح خاں افغان کی طرف صادر فرمایا ہے :۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔
آپ کا مکتوب شریف جو فقرا کی کمال محبت و اخلاص پر مشتمل تھا۔ پہنچا حق تعالی فقرا کی محبت
پر آپ کو استقامت بخشے ۔
سب سے اعلیٰ نصیحت جو دوستان سعادتمند کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ سنت سلیہ علی صاحبا الصلوة والتحیہ کی متابعت کریں اور بدعت نا پسندیدہ سے بچیں ۔ جو شخص سنتوں میں سے کسی سنت کو جو متروک العمل ہو چکی ہو زندہ کر لے تو اس کے لیے سو شہید کا ثواب ہے تو پھر معلوم کرنا چاہئے کہ جب کوئی فرض یا واجب کو زندہ کرے گا تو اس کو کس قدر ثواب ملے گا۔ نماز میں ارکان کا تعدیل کرنا جواکثر علماء حنفیہ کے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسف اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے بعض علماء حنفیہ کے نزدیک سنت ۔ اکثر لوگوں نے اس امر کو ترک کر دیا ہوا ہے اس ایک عمل کا زندہ اور جاری کرنا سو شہید فی سبیل اللہ کے ثواب سے زیادہ ہو گا۔ باقی احکام شرعیہ یعنی حلال و حرام و مکروہ کا بھی یہی حال ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ نیم دانگ اس شخص کو واپس دے دینا جس سے خلاف شرع ظلم سے لیا ہو ۔ دو سو درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص کے نیک عمل پیغمبر کے نیک عملوں کی طرح ہوں اور اس پر نیم دانگ جتنا کسی کا حق باقی رہا ہو تو اس شخص کو بہشت میں نہ لے جائیں گے جب تک اس نیم دائٹنگ کو ادا نہ کر رہے گا۔ غرض ظاہر کو احکام شرعیہ سے آراستہ کر کے باطن کی طرف متوجہ ہونا چاہئے تا کہ غفلت کے ساتھ آلودہ نہ رہے کیونکہ باطن کی امداد کے بغیر احکام شرعی سے آراستہ ہونا مشکل ہے۔ علما صرف فتوی دیتے ہیں اور اہل اللہ کام کرتے ہیں۔ باطن میں کوشش کرنا ظاہر کی کوشش گوستلزم ہے اور جو کوئی باطن ہی کی درستی میں لگار ہے اور ظاہر کی مانے کے رویہ ہے اور اس کے وہ باطنی احوال استدراج ہیں۔ باطنی حالات کے درست ہونے کی علامت ظاہر کو احکام شرعیہ سے آراستہ کرنا ہے۔ استقامت کا طریق ہیں ہے۔ واللہ سبحانهُ الْمُوفق ( اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے )۔