0

مکتوب 93: اس بیان میں کہ عالم خلق اور عالم امر کے لطیفوں میں سے ہر ایک لطیفہ ظاہر بھی رکھتا ہے


مکتوب 93

اس بیان میں کہ عالم خلق اور عالم امر کے لطیفوں میں سے ہر ایک لطیفہ ظاہر بھی رکھتا ہے اور باطن بھی اور یہ باطن عارف کے اسم قیوم سے ملا ہوا ہے اور اس بیان میں کہ عارف نزول کے وقت کلی طور پر ظاہر و باطن کے ساتھ دعوت وعبادت کی طرف متوجہ ہے۔ خواجہ ہا تم بدنش ہی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

عارف تام المعرفت کے عالم خلق و عالم امر دونوں اگر چہ اس اسم قیوم کی نسبت جو اس عارف کا وجہ خاص ہے اور در حقیقت عارف کا باطن اور حقیقت یہی ہے۔ ظاہر وصورت میں داخل ہیں۔ جیسے کہ اس کی تحقیق کسی مکتوب میں تحریر ہو چکی ہے، لیکن جب اس ظاہر صورت کو تیز نظر سے جو اللہ تعالیٰ نے محض فضل سے بخشی ہے ملاحظہ کرتا ہوں ۔ تو یہاں بھی ظاہر و باطن اور صورت و حقیقت پیدا ہو جاتے ہیں۔ نہ یہ کہ عالم خلق کو ظاہر پاتا ہوں اور عالم امر کو باطن جیسے کہ بعض لوگوں کا گمان ہے۔ بلکہ عالم خالق اور عالم امر کے لطائف میں ہر ایک لطیفہ کی صورت بھی ہے اور حقیقت بھی یعنی جس طرح عصر خاک ظاہر رکھتا ہے اور باطن بھی ۔ اسی طرح انھی صورت بھی رکھتا ہے اور حقیقت بھی اور یہ باطن جو عالم خلق اور عالم امر سے تعلق رکھتا ہے۔

دن بدن اعمال صالحہ کے ذریعے بلکہ محض حق تعالیٰ کی بخشش سے تھوڑا تھوڑا اس باطن سے جو اسم قیوم پر وابستہ ہے ملتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس باطن کا کچھ اثر باقی نہیں رہتا اور سوائے ظاہر محض کے سب کچھ پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اس اسم قیوم کیسا تھ اس باطن کے ملنے سے یہ مراد نہیں کہ یہ باطن اس اسم میں حلول کر جاتا ہے۔ یا اس اسم قیوم کے ساتھ اس باطن کے ملنے سے یہ مراد نہیں کہ یہ باطن اس اسم میں حلول کر جاتا ہے۔ یا اس اسم کے ساتھ اتحاد پیدا کر لیتا ہے۔ کیونکہ یہ الحاد ہے۔ سُبحانَ الَّذِي لا يَتَغَيَّرُ بِذَاتِهِ وَلَا بِصَفَتِهِ وَلَا فِي أَسْمَائِهِ بحدوث الاكوان (پاک ہے وہ ذات پاک جو موجودات کی حدوث سے اس کی ذات واسماء وصفات میں تغیر نہیں آتا ) بلکہ اس باطن کو اس اہم کے ساتھ ایک مجہول الکیفیت نسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس سے حلول واتحاد کا وہم گزرتا ہے۔ در حقیقت وہاں نہ اتحاد ہے نہ حلول کیونکہ اس سے حقیقت امکان کا حقیقت وجوب کے ساتھ بدلنا لازم آتا ہے۔ جو محال عقلی ہے اور شریعت میں زندقہ ہے اور وہ ظاہر محض جو باقی رہ جاتا ہے۔ اگر چہ عالم شہادت سے ہے اور مشہود مرتی ہے۔ لیکن باطن کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اگر چہ باطن شہود و ادراک کے احاطہ سے باہر نکل چکا ہے اور غیب سے ملحق ہو کر بیچونی کا رنگ حاصل کر چکا ہے، کیونکہ چون جب تک بیچون کا رنگ نہ پکڑے اور چون کے احاطہ ادراک سے باہر نہ جائے اور شہادت سے غیب کی طرف اسباب نہ لے جائے۔ بیچون حقیقی سے کچھ حصہ حاصل نہیں کرتا اور غیب الغیب سے مطلع نہیں ہوتا ۔

جاننا چاہئے کہ اس ظاہر باقی ماندہ کی توجہ بالکل خلق کی طرف ہے اور طاعات و عبادات شرعیہ اسی کے متعلق ہیں اور دعوت و تکمیل کا معاملہ بھی اسی پر وابستہ ہے اور اس عارف صاحب تکمیل کا باطن بھی خواہ مراتب امکانی کیساتھ تعلق رکھے۔ خواہ مقامات وجوب کے ساتھ ظاہر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جس چیز کی طرف ظاہر توجہ رکھتا ہے۔ باطن بھی اسی کی طرف توجہ رکھتا ہے تا کہ عبادت کی تکمیل و تربیت کامل طور پر ہو۔ کیونکہ یہ دار دار عمل ہے اور یہ مقام مقام دعوت شہود و مشاہدہ کی حقیقت آخرت میں ہے اور کشف و معائنہ کا معاملہ ابھی عاقبت میں ہے۔ اس مقام میں معبود کی عبادت معبود میں مستغرق ہونے سے بہتر ہے اور اس جگہ مطلوب کا انتظار کرنا جس کا باعث محبت ہو۔ مطلوب میں فانی ہونے سے اچھا ہے ارباب سکر اس بات کا یقین کریں یا نہ کریں ۔ عارف صاحب تکمیل کی یہ ظاہری و باطنی توجہ جو اس کو خلق کی طرف پیدا ہوئی ہوئی ہے۔ موت کے وقت تک ہے جو مقام دعوت کا منتہا ہے جب موت آجائے گی۔ موت کے پل پر سے گزر کر محبوب کے کوچہ میں قدم رکھ لے گا اور ایار کی مزاحمت کے بغیر وصل او اتصال کی دولت سے
مشرف ہو جائے گا۔

هَنِيئًا لَأَرْبَابِ النَّعِيمِ نَعِيْمُهَا
وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرَّعُ

ترجمہ: مبارک معموں کو اپنی نعمت
مبارک عاشقوں کو درد و کلفت

رَبَّنا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلَّ شَيْءٍ قَدِير ( یا اللہ تو ہمارے نور کو پورا کر اور ہم کو بخش ۔ تو سب کچھ کر سکتا ہے ) وَ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ وَالْبَرَكَةُ عَلَى خيْرِ خَلْقِ اللَّهِ وَ عَلَى إِخْوَانِهِ الْكِرَامِ وَ أَصْحَابِهِ الْعَظَامِ إِلَى يَوْمَ الْقِيَامَ.

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا