مکتوب 96
تسویف اور تاخیر سے منع کرنے اور جھڑکنے اور شریعت کی متابعت پر ترغیب دینے اور اس کے مناسب بیان میں محمد شریف کو صادر فرمایا ہے۔
اے فرزند ! آج فرصت کا وقت ہے اور جمعیت کے اسباب سب مہیا ہیں تو قف اور تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ بہتر وقت کو جو جوانی کا وقت ہے بہتر عملوں میں جو مولیٰ کی اطاعت وعبادت ہے صرف کرنا چاہئے اور محرمات و مشتبہات سے بچ کر پنج وقتی نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا دوم چاہئے نصاب کے ہونے پر زکوۃ کا ادا کرنا ضروریات اسلام سے ہے ۔ اس کو بھی رغبت اور منت سے ادا کرنا چاہئے ۔ حق تعالیٰ نے اپنے کمال کرم سے تمام دن رات میں پنج وقت عبادت کے لئے مقرر کئے ہیں اور بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے چارپاؤں سے چالیسواں حصہ تحقیقاً اور تقریباً فقراء کے لئے مقرر فرمایا ہے اور مباحات خرچوں کا میدان فراخ کر دیا ہے تو پھر کس قدر نا انصافی ہے کہ دن رات کی ساٹھ گھڑیوں میں سے دو گھڑی بھی حق تعالیٰ کی بندگی میں صرف نہ ہوں اور چالیس حصوں میں سے ایک حصہ بھی فقراء کو ادا نہ کیا جائے اور مباحات کے وسیع دائرہ سے نکل کر محرمات اور مشتبہات میں جاپڑیں جوانی کے وقت جبکہ نفس امارہ اور شیطان لعین کا غلبہ ہے تھوڑے عمل کو بہت سے اجر کے عوض قبول کرتے ہیں اور جبکہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں گے اور حواس اور قوتیں سست ہو جائیں گی اور جمعیت کے اسباب پراگندہ ہو جائیں گے تو سوائے ندامت و پشیمانی کے کچھ حاصل نہ ہوگا اور ممکن ہے کہ کل تک مہلت نہ دیں اور ندامت و پشیمانی کا و موقع بھی جو ایک قسم کی تو بہ ہے ہاتھ نہ آئے اور ہمیشہ کا عذاب جس کی نسبت پیغمبر صادق علیہ السلام نے خبر دی ہے اور گنہگاروں کو اس سے ڈرایا ہے۔ در پیش ہے اس میں کچھ خلاف نہیں ہے۔ آج شیطان خدا کے کرم پر مغرور کر کے سستی میں ڈالتا ہے اور اس کی عفو کا بہانہ بنا کر گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ دنیا آزمائش اور ابتلا کا مقام ہے اس میں دشمن و دوست دونوں کا ملایا ہوا ہے اور دونوں کو رحمت میں شامل کیا ہے ۔ وَسِعَتْ رَحْمَتِى كُلَّ شَيْ ( میری رحمت نے سب چیزوں کو گھیر لیا ہے ) اسی بات پر شامل ہے۔ لیکن قیامت کے دن دشمن کو دوست سے جدا کر دیں گے ۔ وَامْتَازُوُا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (اے مجر مو آج الگ ہو جاؤ ) اسی مضمون کی خبر دیتی ہے۔ اس وقت رحمت کا قرعہ دوستوں کے نام ڈالیں گے اور دشمنوں کو محروم مطلق اور لعنت کا مستحق فرمائیں گے ۔ فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِايَتِنَا يُؤْمِنُونَ ( میں اس کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور میری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ) اسی مطلب کا گواہ ہے۔ یعنی میں رحمت کو ان لوگوں کے لئے ثابت کروں گا جو کفر و معاصی سے بچتے ہیں اور زکواۃ آدا کرتے ہیں۔ پس کرم و رحمت آخرت میں نیکوکار اور پر ہیز گار مسلمانوں کے لئے ہاں مطلق اہل اسلام کے لئے بھی خاتمہ بالخیر ہونے پر رحمت کا کچھ حصہ ہے۔ اگرچہ بے شمار زمانوں کے بعد دوزخ کے عذاب سے نجات پائیں گے لیکن گناہوں کی سیاہی اور آسمانی نازل ہوئے ہوئے احکام کی پروا نہ کرنا نورِ ایمان کو کب سلامت لے جانے دیتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ صغیرہ پر اسرار کرنا کبیرہ تک پہنچادیتا ہے اور کبیرہ پر اسرار کرنا کفر تک لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بچائے۔
اند کے پیش تو گفتم غم دا، ترسیدم
که دل آزرده شوی ودر نه بخن بسیار است
ترجمہ: غم دل اس لئے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے مشفق
کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا
حق تعالٰی حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے طفیل اپنی مرضیات و پسندیدہ کاموں کی توفیق دے۔
بقیہ مقصود یہ ہے کہ حامل رقیمہ ہذا مولانا اسحاق فقیر کا مخلص اور آشنا ہے اور قدیم سے ہمسائیگی کا حق بھی رکھتا ہے اگر مدد واعانت طلب کرے تو اس کے حال پر توجہ فرمائیں ۔ مشار الیہ فن کتابت اور انشاء میں اچھی مہارت رکھتا ہے۔
والسلام۔