مکتوب 98
نرمی کرنے کی ترغیب دینے اور سختی کو ترک کرنے کے بیان میں اور اس کے مناسب احادیث نبوی علٰی مصدر ہاالصلوۃ والسلام کے لکھنے میں شیخ زکریا کے بیٹے عبد القادر کی طرف لکھا ہے ۔
حق تعالیٰ مرکز عدالت پر استقامت بخشے ۔ نبی صلى الله عليه وسلم کی چند حدیثیں جو وعظ و نصیحت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، لکھی جاتی ہیں۔ حق تعالیٰ ان کے موافق عمل نصیب کرے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللهَ رَفِيقُ يُحِبُّ الرَفقَ وَيُعْطِى عَلَى الرفق ما لا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ (رواه مسلم
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ رفیق ہے نرمی دوست رکھتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی اور اس کے سوا اور چیز پر نہیں دیتا۔
اور مسلم کی دوسری روایت میں ہے
قال لعائشة عليك بالرفق وایاک والعنف والفحش ان الرفق لا يكون فى شىء الا زانه ولا ينزع من شيء الا شانه.
آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ کو فرمایا نرمی کو لازم پکڑ اور درشت خوئی اور بکواس سے بچ کیونکہ نرمی جس چیز میں ہو اس کو زینت دیتی ہے اور جس چیز سے نکل جائے اس کو عیب ناک کر دیتی ہے۔
وَقَالَ أَيْضاً عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ مِنْ يُحْرَم الرفق يُحْرَمُ الْخَيْرَ: جو نرمی سے محروم رباد و سب نیکی سے محروم رہا۔
وَقال أيضاً عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ اِنَّ مِنْ اَحَتِكُمُ اِلَى اَحْسَنُكُمُ اخلاقاً :تم میں سے زیادہ اچھا میرے نزدیک وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔
اور نیز آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے :مَنْ اُعْطِى حَظِّه مِنَ الرّفْقِ أعْطِى حَظِّهُ من الدُّنْيَا وَالآخرة: جس کو نرمی کا کچھ حصہ دیا گیا اس کو دنیا و آخرت کی بھلائی کا حصہ مل گیا۔
اور نیز حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے: اَلْحِيَاءُ مِنَ الْإِيمَان وَالْإيْمَانُ فِى الْجَنَّةِ وَالبَذَاء مِنَ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِى النَّارِ إِنَّ اللَّهُ يُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْيُذِى اَلاَ أُخْبرُكُم بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ وَيُحْرَمُ النَّارِ عَلَيْهِ عَلَى كُلِّ هَنٍ لَيْنِ قَرِيبٍ سَهْلِ الْمُؤْمِنُونَ هَيَنُونَ لَيَنُونَ كَالْجَمَلِ الْأَنفِ إِنْ قِيْدَ انْقَادَوَانِ اسْتُنِيحَ عَلَى صَخْرَةٍ إِسْتَنَاخَ مَنْ كَظَمَ غَيْظاً وَهُوَ يَقْدِرُ عَلى أَنْ تُنْقِذَهُ دَعَاهُ اللهُ تَعَالَى عَلَى رَؤُسِ الْخَلائِقِ يَوْمَ الْقِيمَةِ حَتَّى يُخَيَرَهُ فِي اَيَ الْحَوْرَاءِ شَاءَ.
حیا ایمان سے ہے اور اہل ایمان جنت میں ہے اور بکواس جفا سے ہے اور جفا دوزخ میں ہے اور اللہ تعالیٰ بے حیا بکواسی کو دشمن جانتا ہے کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ آگ دوزخ کی کس پر حرام ہے۔ ہر ایک نرم اور متواضع قریب سہل پر۔ مومن سب نرم اور تواضع کرنے والے ہیں۔ ناک میں مہار ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح۔ اگر اس کو ہانکا جائے تو چل پڑے اور اگر اس کو پتھر پر بٹھا ئیں تو بیٹھ جائے جس نے غصہ کو پی لیا اور حالانکہ وہ اس کے جاری کرنے پر قابورکھتا ہے اللہ
تعالیٰ قیامت کے دن اس کو سب خلقت کے سامنے بلائے گا تا کہ اس کو اختیار دے کہ جس حور کو چاہتا ہے پسند کر لے۔
وَإِنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلى و آلِهِ وسَلَّمَ اَوْصِنِى قال لا تَغْضَبُ فردًا مِرَارًا قَالَ لا تَغْضَبْ أَلا أخبرُكُمْ باهل الْجَنَّةِ كُلُّ ضَعِيْف مُتَضَعَف لَوْ أَقْسَم على اللهِ لاَ بَرَّهُ أَلا أخبرُ كُمُ باهلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلَ جَوَاطٍ مُسْتَكْبِرٍ إِذا غضب أحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسُ فَإِنْ ذَهَب عَنهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعُ إِنَّ الْغَضَب لَيُفْسِدُ الإِيْمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الصَّبْرُ الْعَسُل مَنْ توَاضِعَ لِلَّهِ رَفَعَهُ اللهُ فَهُو فِي نَفْسه صَغِيرُ وفِي أعين الناس عظيم ومَنْ تَكَبَّر وضعهُ اللهُ فهُوَ فِى أعْيُنِ النَّاسِ صغير وَفِي نَفْسِهِ كَبِيرُ حَتَى لَهُو أهْوَنُ عَلَيْهِمْ مِنْ قَلب او خنزير.
ایک شخص نے نبی صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے وصیت کریں آپ نے فر ما یا غصہ مت کیا کر۔ اس نے پھر عرض کی پھر بھی آپ نے فرمایا غصہ مت کیا کر۔ کیا میں آپ کو اہل جنت کی نسبت خبر نہ دوں، وہ ضعیف اور عاجز ہے کہ اگر اللہ پر قسم کھائے تو اللہ اس کی قسم کو سچا کر دے اور میں ، کیا تم کو اہل دوزخ کی خبر نہ دوں وہ سرکش اکڑ نے والا متکبر ہے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ پس اگر اس کا غصہ دور ہو گیا تو بہتر ورنہ اسے چاہئے کہ لیٹ جائے کیونکہ غضب ایمان کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جیسا مصبر شہر کو بگاڑ دیتا ہے جس نے اللہ کے لئے تواضع کی اس کو اللہ بلند کرتا ہے پس وہ اپنے نفس میں حقیر اور لوگوں کی آنکھوں میں بڑا ہوتا ہے اور جس نے تکبر کیا اللہ اس کو پست کرتا ہے۔ پس وہ لوگوں کی آنکھوں میں حقیر اور اپنے نفس میں بڑا ہوتا ہے ۔ یہاں تک لوگوں کے نزدیک کتے اور سور سے بھی زیادہ خفیف ہو جاتا ہے۔
حضرت موسیٰ بن عمران علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کی یا رب تیرے بندوں میں سے تیرے نزدیک زیادہ عزیز کون ہے ۔ فرمایا وہ شخص جو باوجود قادر ہونے کے معاف کر دئے۔
وَقَالَ أَيْضاً عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلاَمُ والتَّحِيَّةُ مِنْ خَرنَ لسَانهُ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتهُ وَمَنْ كَفَّ غَضِبَهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ عَذَابَهُ يَومَ الْقِيمَةِ وَ مَنِ اعْتَذَرَ قَبلَ اللهُ تَعَالَى عُذْرَهُ. جس نے اپنی زبان کو بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کی شرم گاہ کو ڈھانپتا ہے اور جس نے غصے کو روکا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کا عذاب اس سے روک لے گا اور جس نے عذر قبول کیا اللہ تعالی اس کے عذر کو قبول کرے گا۔
وَقَالَ أيضاً عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام مَنْ كَانَتْ لَهُ لَاخِيُهِ مِنْ عَرْضِهِ أَوْشَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْ مِنْهُ اليَومَ قَبْل أَن لا يَكُونَ دِينَارُ وَلا دِرْهَم إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ بقدره مظْلِمَتِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتُ أُخِذَ مَنْ سَيَاتِ صَاحِبه فَحُمِلَ عَلَيْهِ.
جس شخص پر کسی اپنے بھائی کا کوئی مالی یا اور کوئی حق ہے تو اسے چاہئے کہ آج ہی اس سے معاف کرالے۔ پیشتر اس سے کہ اس کے پاس کوئی درہم و دینار نہ ہوگا ۔ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے حق میں موافق لیا جائے گا اور اگر کوئی نیکی نہ ہوگی تو صاحب حق کی برائیاں لے کر اس کی برائیوں میں اور زیادہ کی جائیں گی۔
وَقَالَ أَيْضاً عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ اَتَدْرُونَ مَالْمُفْلِسُ قَالُو الْمُفْلِسُ فِيْنَا مَنْ لَّا دِرْهَمَ لَهُ وَلا مَتَاعَ فَقَالَ الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَّاتِي يَوْمَ الْقِيمَةِ بِصَلوةِ وَصِيَامٍ وَ زكوة و يأتِي قدشتم هذا واكل مَالَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا فَيُعطى هذا مِنْ حَسَناتِهُ فَانُ فَنِيَتُ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقضى ما عليْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمُ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طرح فِى النَّارِ
نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم جانتے ہو مفلس کون ہے یاروں نے عرض کی ہم میں وہ مفلس ہے جس کے پاس درہم و اسباب کچھ نہ ہو ۔ آپ نے فرمایا میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ ، زکوۃ سب کچھ کر کے آئے اور ساتھ ہی اس نے کسی کو گالی دی ہے اور کسی کا مال کھایا ہے اور کسی کو تہمت لگائی ہے اور کسی کا خون گرایا ہے اور کسی کو مارا ہے پس ان نیکیوں میں سے ہر ایک کو دی جائیں گی۔ پس اگر حق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو حق داروں کے قصور لے کر اس کے گناہوں میں اور زیادہ کئے جائیں گے اور پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ میری طرف کچھ لکھیں کہ جس میں مجھے وصیت کریں لیکن بہت نہ ہو مختصر ہو۔
پس انہوں نے یہ لکھا۔
سَلامٌ عَلَيْكُمْ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنِ الْتَمَسَ رَضِيَ اللَّهُ بِسَخْطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللَّهُ مَؤُتَةَ النَّاسِ وَمَن التَمَسَ رَضِيَ النَّاسِ بِسَخُطِ اللَّهِ وَكَلَهُ اللهُ إِلَى ب وَالسَّلَام عَلَيْكَ صَدَقَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلم
آپ پر سلام ہو اس کے بعد واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جوشخص لوگوں کے غصہ کے مقابلہ میں اللہ کی رضا مندی چاہے اللہ تعالی اس کولوگوں کی تکلیف سے بچائے رکھتا ہے اور جس شخص نے اللہ کی ناراضگی کے مقابلہ میں لوگوں کی رضا مندی چاہی۔ اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے حوالہ کر دیتا ہے اور تجھ پر سلام ہو۔ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔
حق تعالی ہم کو اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے جو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا ہے۔ والسلام ۔
یہ حدیثیں اگر چہ بغیر ترجمہ کے لکھی گئی ہیں لیکن شیخ جیو کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے معنی سمجھ لیں اور کوشش کریں کہ ان کے موافق عمل نصیب ہو جائے دنیا کا بقا بہت تھوڑا ہے اور آخرت کا عذاب بہت سخت اور دائمی ہے۔ عقل دور اندیش سے کام لینا چاہئے اور دنیا کی طراوت اور حلاوت پر مغرور نہ ہونا چاہئے ۔ اگر دنیا کے باعث کسی کی عزت وآبرو ہوتی تو کفار دنیا دار سب سے زیادہ عزت والے ہوتے اور دنیا کے ظاہر پر فریفتہ ہونا بے وقوفی ہے چند روزہ فرصت کو غنیمت جاننا چاہئے اور خدائے تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں میں کوشش کرنی چاہئے اور خَلق خدا پر احسان کرنا چاہئے اللہ کے امر کی تعظیم کرنا اور خَلق خدا پر شفقت کرنا آخرت کی نجات کے لئے دو بڑے رکن ہیں ۔ مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا ہے ۔ حقیقت حال کے مطابق ہے۔ بے ہودہ اور بکواس نہیں ہے۔ یہ خواب خرگوش کب تک ۔ آخر رسوائی اور خواری اٹھانی پڑے گی ۔ حق تعالی فرماتا ہے۔ اَفَحَسِبْتُمُ أَنَّمَا خلقنكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لا تُرْجَعُونَ: کیا تم نے خیال کیا ہے کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف نہ پھرو گے۔ اگرچہ معلوم ہے کہ تمہارا وقت اس قسم کی باتیں سنے کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ جوانی کا آغاز ہے اور دنیوی عیش و آرام سب موجود اور خلقت پر غلبہ اور حکومت حاصل ہے لیکن آپ کے حال پر شفقت اس گفتگو کا باعث ہوئی ہے ابھی کچھ نہیں گیا۔ توبہ وانابت کا وقت ہے ۔ اس لئے اطلاع دینا ضروری ہے۔
در خانه اگر کسی است یک حرف بس است
ترجمہ :سنے کوئی اگر میری فقط اک حرف کافی ہے۔
والسلام اولاً وآخراً۔