مکتوب 99
ایک استفسار کے جواب میں جو دوام آگاہی کی کیفیت اور حالت نوم کے ساتھ اس کے جمع کرنے کے بارے میں جو سراسر غفلت اور بیکاری ہے کیا گیا تھا مُلا حسن کشمیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔
آپ کا بزرگ محبت نامہ صادر ہوا اور اس استفسار کا حال جو آپ نے دوام آگاہی کی کیفیت اور حالت نوم کے ساتھ اس کے جمع کرنے کے بارے میں جو سراسر غفلت اور بیکاری ہے اور اس بزرگ خاندان کے بعض بزرگوں نے اس دولت کے حاصل ہونے کی نسبت خبر دی ہے کیا ہوا تھا معلوم ہوا۔
میرے مخدوم! اس اشکال کا حل ایک مقدمہ پر مبنی ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے میں کہتا ہوں کہ انسانی روح کے لئے اس جسمانی صورت کے تعلق سے پہلے ترقی و عروج کا رستہ بند تھا اور وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقام مَّعْلُوم، کے پنجرہ میں مقید محبوس تھا لیکن اس جو ہر نفس کی طبیعت میں عروج کی استعداد نزول کی شرط پر بطور امانت رکھی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے فرشتہ پر اس کی زیادتی مقرر فرمائی تھی حق تعالیٰ نے اپنی کمال بخشش سے اس نورانی جو ہر کو اس ظلمانی جسم کے ساتھ جمع کر دیا۔ فَسُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ النُّوْرِ وَالظُّلْمَةِ وَقَرَنَ الْأَمْرَ بِالْخَلْقِ ۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے نور اور ظلمت کو جمع کر دیا اور امر کو خلق کے ساتھ ملا دیا اور چونکہ یہ دونوں امر در حقیقت ایک دوسرے کے ضد و نقیض واقع ہوئے تھے۔
اس لئے حکیم مطلق جل شانہ نے اس اجتماع کے ثابت کرنے اور اس انتظام کے مقرر کرنے کے لئے روح اور نفس کے درمیان عشق و گرفتاری کی نسبت پیدا کی اور اس گرفتاری کو ان
کے انتظام کا سبب بنایا۔ آیت کریمہ : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (البتہ تحقیق پیدا کیا ہم نے آدمی کو بیچ اچھی ترکیب کے پھر پھیر دیا۔ ہم نے اس کو سے نیچے ) میں اس بیان کی رمز ہے اور یہ روح کا تنزل اور اسکی گرفتاری حقیقت میں مدح بما یشبہ اندم کی قسم سے ہے۔
پس اس محبت کی نسبت کے باعث روح نے ہمہ تن اپنے آپ کو عالم نفس میں ڈال کر اپنے آپ کو اس کے تابع بنادیا بلکہ اپنے آپ کو بھول گیا اور اپنے آپ کو نفس امارہ سے تعبیر کیا۔ روح کی اصلیت میں یہ لطافت اور ہے کہ کمال لطافت کے باعث جس طرف متوجہ ہوتا ہے اسی کا حکم اختیار کر لیتا ہے۔ پس جب اس نے اپنے آپ کو فراموش کیا ہو تو ضرور ہے کہ اپنی پہلی آگاہی کی نسبت کو بھی جو وجوب حق تعالٰی کے مرتبہ میں رکھتا تھا۔ فراموش کر دے گا اور ہمہ تن اپنے آپ کو غفلت میں ڈال دے گا اور ظلمت کا حکم پکڑ لے گا۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال مہربانی اور بندہ نوازی سے انبیائے علہیم الصلوۃ والسلام کو پیدا کیا اور اس کو ان بزرگواروں کے ذریعے اپنی طرف بلایا اور نفس کی مخالفت کے لئے جو روح کا معشوق ہے حکم فرمایا۔ فَمَن رَجَعَ الْقَهْقَرِي فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا وَمَنْ لَّمْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَاخْتَارَ الْخُلُودَ إِلَى الْأَرْضِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعِيداً ۔ پس جو پاؤں کے بل الٹا پھر وہ بڑا کامیاب ہوا اور جس نے اپنا سر نہ اٹھایا اور زمین میں ہی ہمیشہ رہنا اختیار کیا وہ سخت گمراہ ہو گیا۔
اب ہم اس اشکال کا جواب لکھتے ہیں کہ اس مقدمہ سے روح کا نفس کے ساتھ جمع ہونا تو مفہوم ہو گیا بلکہ نفس ہی میں اس کی فنا اور اسی کے ساتھ اس کی بقاء معلوم ہو چکی ۔ پس نا چار جب تک یہ اجتماع اور انتظام قائم ہے۔ ظاہر کی غفلت بعینہ باطن کی غفلت ہے اور نیند جو ظاہر کی غفلت ہے عین باطن کی غفلت ہے اور جب اس انتظام میں خلل پڑ جائے اور باطن ظاہر کی محبت سے منہ پھیر لے اور باطنوں کے باطن کی محبت اس کو حاصل ہو جائے اور وہ فناو بقا جو فانی کے ساتھ پیدا کی تھی ، زائل ہو جائے اور باقی حقیقی کے ساتھ فنا و بقاء حاصل کر لے تو اس وقت ظاہر کی غفلت باطن کے حضور میں تاثیر نہیں کرتی اور کیونکر تاثیر کرے جبکہ باطن نے ظاہر کی طرف پیٹھ کی ہوئی ہے اور ظاہر کی طرف سے باطن میں کچھ نہیں جاتا۔ پس جائز ہے کہ ظاہر غافل ہو اور باطن آگاہ ہو ۔ ولا مَحْذُورَ اس میں کچھ ڈر نہیں۔
مثلا روغن بادام جب تک کھلی میں ملا ہوا ہے دونوں کا حکم ایک ہے اور جب روغن بھلی سے جدا ہو گیا تو دونوں کے احکام جدا جدا ہوں گے اور ایک کا حکم دوسرے پر جاری نہ ہوگا۔
اس قسم کے صاحب دولت کو جہان کی طرف واپس لانا چاہیں اور جہان کو اس کے وجود شریف کی برکت سے نفسانی اندھیروں سے نکالنا چاہیں تو اس کو سیر عن الله باللہ کے طریق پر جہان کی طرف لے آتے ہیں اور اس کی توجہ ہمہ تن خلق کی طرف ہوتی ہے۔ بغیر اس بات کے کہ اس کو ان کے ساتھ کسی قسم کی گرفتاری حاصل ہو۔ کیونکہ وہ اسی اپنی پہلی گرفتاری پر ہے۔ بے اختیار اس کو اس جہان میں لائے ہیں۔ پس یہ منتہی خدائے تعالیٰ کی طرف سے منہ پھیر نے اور خلق کی طرف توجہ کرنے میں ظاہر طور پر تمام مبتدیوں کے ساتھ مشترک ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ان سے کچھ مناسبت نہیں رکھتا اور گرفتاری اور عدم گرفتاری میں بڑا فرق ہے اور نیز خلق کی طرف منہ کرنا اس منتہی کے حق میں بے اختیاری ہے۔ اس میں وہ اپنی کچھ رغبت نہیں رکھتا بلکہ اس توجہ میں حق تعالیٰ کی رضامندی اور مبتدی میں اپنی ذاتی رغبت اور حق تعالیٰ کی نا رضامندی ہے۔ اب ایک اور فریق بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مبتدی کے لئے آسان ہے کہ عالم کی طرف سے منہ پھیر کر حق تعالیٰ کی طرف توجہ کرے لیکن منتہی کے لے خلق کی طرف منہ پھیرنا محال ہے۔ خلق کی طرف ہمیشہ کے لئے توجہ کا ہونا اس کے مقام کے لازم ہے ہاں جبکہ اس کی دعوت کا کام تمام ہو جائے اور اس کو دار فنا سے دار بقاء کی طرف لے جانا چاہیں تو اس وقت الرفيق الاعلیٰ کی ندا اس کو سنائی جاتی ہے۔
مشائخ طریقت قدس سرہم نے مقام دعوت کے مقرر کرنے میں مختلف باتیں بیان کی ہیں۔ بعض نے حق اور خلق کے درمیان تو جمع کا جمع ہونا بیان کیا ہے۔ ان کا اختلاف احوال و مقامات کے اختلاف پر مبنی ہے۔ ہر ایک نے اپنے مقام کی نسبت خبر دی ہے ۔ وَالْأَمْرُ عِندَ اللهِ سُبْحَانَهُ اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔
اور یہ جو سید الطائفہ جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ نہایت یہی ہدایت کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اسی مقام دعوت کے موافق ہے جو اس مسودہ میں لکھا جا چکا ہے کیونکہ ہدایت میں ہمہ تن توجہ خلق کی طرف ہے۔ حديث: تَنَامُ عَيْنَاكَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ( میری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا ) جو لکھی ہوئی تھی۔ اس میں دوام آگاہی کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ بلکہ اپنے اور اپنی امت کے احوال سے غافل نہ ہونے کی خبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیند آ نحضرت صلى الله عليه وسلم کے حق میں وضو کو توڑنے والی نہ ہوئی اور جبکہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام اپنی امت کی محافظت میں گڈرئیے کی طرح ہیں تو پھر غفلت منصب نبوت کے مناسب نہیں اور حدیث: لِی مَعَ اللهِ وَقُتَ لَا يَسْعَنِي فِيهِ مَلَكَ مُقَرَّبُ وَلا بَنِى مُرْسَلُ میں بشرط صحت بجلی ذاتی برقی کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے اور وہ تجلی بھی حق تعالیٰ کی جناب کی طرف مستلزم نہیں ہے بلکہ یہ تجلی اس طرف سے ہے متجلی لہ کا اس میں کچھ دخل نہیں اور عاشق میں معشوق کے سیر کرنے کی قسم سے ہے کیونکہ عاشق سیر سے سیر ہو گیا ہوا ہے۔
آمینه صورت از سفر دور است
کاں پذیراے صورت از نور است
ترجمہ: سفر سے آئینہ صورت کا ہے بہت اب دور
قبول کرتا ہے صورت کو وہ باعث نور
جانا چاہئے کہ خلق کی طرف رجوع کرنے کی حالت میں دور ہوئے ہوئے پردے پھر عود نہیں کرتے۔ باوجود بے پردگی کے اس کو خلق میں مشغول کیا ہے اور مخلوقات کی بہتری اور خلاصی اس پر منحصر کی ہے۔
ان بزرگواروں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بادشاہ کے ساتھ بڑا اتقرب رکھتا ہے اور اس کے بادشاہ کے درمیان کوئی ظاہری اور باطنی مانع نہیں ہے اور باوجود اس کے اس کو حاجت مند لوگوں کی خدمت میں مشغول کیا ہے۔ یہ مبتدی و منتہی مرجوع میں اور فرق ہے کیونکہ مبتدی ابھی حجاب میں ہے اور منتہی کے آگے سے حجاب اٹھائے گئے ہیں ۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى اور سلام ہو آپ پر اور ان لوگوں پر جو ہدایت کے تابع ہوئے۔