2

مکتوب 45 : یہ بھی سرداری اور شرافت کے پناہ والے شیخ فرید کی طرف لکھا ہے


مکتوب 45

یہ بھی سرداری اور شرافت کے پناہ والے شیخ فرید کی طرف لکھا ہے ۔ یہ مکتوب اپنے پیر دستگیر کے اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد لکھا تھا اور چونکہ خانقاہ کے فقرا کی ظاہری تقویت شیخ موصوف سے منسوب تھی ۔ اس لئے اس کا شکر کر کے انسان کی جامعیت کی وجہ کو جو انسان کے کمال کا بھی اور نقصان کا بھی موجب ہے، بیان کیا ہے۔ اور ماہ مبارک رمضان شریف کے فضائل اور اس کے مناسب ذکر کئے ہیں ۔

۔ ثَبَّتَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ عَلَى جَادَّ إِبَائِكُم الْكِرَامِ وَسَلَّمَكُمْ عَنْ مُوجِبَاتِ التَّلَهُفِ وَالتَّاسُّفِ بِمُرُورِ الشُّهُورِ وَالأَيَّامِ اللہ تعالی آپ کو اپنے بزرگ باپ دادوں کے راستہ پر ثابت قدم رکھے اور مہینوں اور دنوں کی گردش کے باعث غم و اندوہ کے حادثوں سے سلامت رکھے۔

خدا کے دوست الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ( آدمی اسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ اس کو محبت ہے) کے موافق خدا کے ساتھ ہیں لیکن بدنی تعلق اس معیت اور اتصال کے درمیان ایک قسم کا مانع ہے۔ اس عنصری پیکر سے جدا ہونے اور ظلمانی صورت سے الگ ہونے کے بعد قرب در قرب اور اتصال در اتصال ہے ۔ الْمَوْتُ جَسَرٌ يُوصِلُ الْحَبِيْبَ إِلَى الْحَبِيبِ موت ایک پل ہے جو ایک دوست کو دوسرے دوست سے ملاتا ہے ) انہی معنوں کا بیان ہے اور آیت کریمہ وَمَنُ كَانَ يَرْجُو القَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَاتِ ) جو شخص اللہ تعالیٰ کا دیدار چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ آنے والا ہے) کا مضمون جو مشتاقوں کے لئے ایک قسم کی تسلی ہے ۔ اسی رمز کو بیان کرتا ہے لیکن ہم پس ماندوں کا خیال بزرگوں کی حضور کی دولت کے بغیر خراب و ابتر ہے اور بزرگوں کی روحانیات سے فیض حاصل کرنا چند شرطوں پر مشروط ہے کہ ہر ایک کو ان شرطوں کے پورا کرنے کی مجال نہیں ۔


لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد اور احسان ہے کہ اس ہولناک حادثہ اور وحشت ناک واقعہ کے باوجود ان بے سروسامان فقرا کا مربی اور مددگار بھی دین و دنیا کے سردار صلى الله عليه وسلم کی اہل بیت سے مقرر ہوا ہے جو اس سلسلہ علیہ کے انتظام اور نسبت نقشبندیہ کی جمعیت کا وسیلہ ہے۔


ہاں یہ نسبت علیہ بھی جو اس ملک میں بہت غریب ہے اور اس نسبت والے لوگ ان ملکوں میں بہت تھوڑے ہیں ۔ چونکہ اہل بیت کی نسبت کی طرح ہے تو اس کا مربی بھی اہل بیت ہی سے ہونا ا مناسب ہے اور اس کی تقویت کے لئے بھی انہی نسبت والوں سے ہونا بہتر ہے تا کہ اس بڑی دولت کی تکمیل غیر کے حوالہ نہ ہو جائے جس طرح اس بڑی نعمت کا شکر فقرا پر واجب ہے اسی طرح اس دولت کا شکر بھی ان کے ذمے لازم ہے۔ انسان جس طرح باطنی جمعیت کا محتاج ہے ۔ اسی طرح ظاہری جمعیت کی بھی اس کو احتیاج ہے بلکہ یہ احتیاج مقدم ہے بلکہ تمام مخلوقات میں سے زیادہ محتاج انسان ہے اور یہ احتیاج کی زیادتی اس کو اس کی جامعیت کے سبب سے ہے اور جو کچھ سب کے لئے درکار ہے وہ اس اکیلے کو درکار ہے اور جس جس چیز کی طرف محتاج ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق بھی ہے۔ پس اس کے تعلق سب سے زیادہ ہیں اور ہر ایک تعلق خدائے تعالیٰ کی طرف سے روگردانی کا باعث ہے۔ پس اس لحاظ سے تمام مخلوقات میں سے زیادہ محروم انسان ہے۔

پایه آخر آدم است و آدمی گشت محروم از مقام محرمی

گر نگردد باز مسکین زین سفر نیست از دے بیچکس محروم تر

ترجمہ: رتبہ انسان ہے سب سے اخیر اس لئے محروم تر ہے یہ فقیر

گر نہ لوٹے اس سفر سے یہ گدا ہے پھر اس کے حال پر واحسرتا

حالانکہ تمام مخلوقات میں سے اس کے افضل اور اشرف ہونے کا سبب بھی یہی وجہ جامعیت ہے اس لئے کہ اس کا آئینہ پورا اور کامل ہے اور جو کچھ تمام مخلوقات کے آئینوں میں ظاہر ہے وہ اس کے ایک ہی آئینہ میں روشن ہے ۔ پس اس جہت سے تمام مخلوقات سے بہتر اور اچھا انسان ہے اور مذکورہ بالا جہت سے سب سے بدتر بھی یہی ہے۔ اسی انسان کی نسل سے حضرت محمد صلى الله عليه وسلم تھے اور اسی سے ابو جہل علیہ العنۃ اس میں شک نہیں کہ خدائے تعالیٰ کی توفیق سے ان فقرا کی ظاہری جمعیت کے ضامن اور کفیل آپ ہی ہیں۔ باطنی جمعیت کے بارہ میں بھی الـو گـدُسِر لابيه ( بیٹا باپ کا نمونہ ہوتا ہے ) کے موافق بڑی بھاری امید ہے چونکہ آپ کا عنایت نامہ رمضان شریف میں صادر ہوا ہے اس لئے دل میں گزرا کہ اس بڑے قدر والے مہینے کے کچھ فضائل لکھے جائیں۔

جانا چاہئے کہ رمضان کا مہینہ بڑا بزرگ ہے عبادت نفلی از قسم نماز و روزہ و صدقه و غیرو جو اس مہینہ میں آدا کی جائے دوسرے دنوں میں فرضوں کے آدا کرنے کے برابر ہے اور اس مہینے کے فرضوں کا آدا کرنا دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے آدا کرنے کے برابر ہے ۔ اگر کوئی شخص اس مہینہ میں روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کو بخش دیتے ہیں اور اس کی گردن کو دوزخ سے آزاد کر دیتے ہیں اور اس کو روزہ دار کے اجر کے برابر اجر عطا کرتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر کو کم کریں اور ایسے ہی اگر کوئی شخص اپنے غلاموں کی خدمت میں کمی کرے تو حق تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور اس کی گردن دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔ رمضان کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کو آزاد کر دیا کرتے تھے اور جو کچھ آپ سے کوئی مانگتا اس کو دے دیتے تھے ۔ اگر کسی شخص کو اس مہینے میں خیرات اور اعمال صالح کی توفیق حاصل ہو جائے تو تمام سال تک توفیق اس کے شامل حال رہتی ہے اور اگر یہ مہینہ پراگندگی سے گزرا تو تمام سال ہی پراگندہ گزرتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے اس مہینے کی جمعیت میں کوشش کرنی چاہئے اور اس مہینےکو غنیمت جاننا چاہیے ۔ اس مہینے کی ہر رات میں کئی ہزار دوزخ کے لائق آدمیوں کو آزاد کرتے ہیں اور اس مہینے میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیر ڈالے جاتے ہیں اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور افطار میں جلدی کرنا اور سحرگی کو دیر سے کھانا سنت ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑا مبالغہ کرتے تھے اور شاید سحرگی کی تاخیر اور افطار کی جلدی میں اپنے عجز و احتیاج کا اظہار ہے جو مقام بندگی کے مناسب ہے اور کھجور یا چھوہارہ سے افطار کرنا سُنت ہے اور افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔


ذَهَبَ الطَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ العُرُوقَ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى پیاس دور ہوگئی اوررگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا انشاء اللہ تعالی ۔

تراویح کا ادا کرنا اور قرآن مجید کا ختم کرنا اس مہینے میں سُنت موکدہ ہے اور اس سے بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ وَفَّقَنَا اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِحُرُمَةِ حَبِيبِهِ عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلَوتُ وَالتَّسْلِيْمَاتُ وَ التَّحَيَّاتُ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہم کو ان کاموں کی توفیق دے۔

باقی یہ تکلیف دیتا ہے کہ آپ کا عنایت نامہ عین رمضان شریف میں پہنچا ورنہ حکم کے بجا لانے میں اپنے آپ کو معاف نہ رکھتا۔ ماہ مبارک کے بعد کی نسبت کی گفتگو کرنا۔ غیب سے حکم کرنا ہے اور بڑی لمبی امید سے خبر دینے والا ہے۔ غرض جس طرح آپ کی مرضی ہوگی اس میں کسی طرح اپنے آپ کو معاف نہ رکھے گا کیونکہ آپ کے ظاہری باطنی حقوق ہم فقرا کے ذمے ثابت ہیں۔

حضرت قبلہ گا ہی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ جیو کے حقوق تم سب پر ثابت اور مقرر ہیں اس جمعیت کا باعث آپ ہی ہیں۔ حق تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم اور ان کی بزرگ آل رضی اللہ عنہم کی طفیل پسندیدہ اعمال کی توفیق بخشے ۔ اس سے زیادہ لکھنا باعثِ تکلیف ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا