2

مکتوب 46: اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کا وجود اور اس کی وحدت اور محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی نبوت بلکہ تمام جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں سب بد یہی ہیں اور کسی فکر اور دلیل کے محتاج نہیں ہیں۔


مکتوب 46

اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کا وجود اور اس کی وحدت اور محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی نبوت بلکہ تمام جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں سب بدیہی ہیں اور کسی فکر اور دلیل کے محتاج نہیں ہیں۔ اور اس مضمون کے واضح کرنے میں بہت دلائل بیان کیے ہیں ۔ یہ مکتوب بھی سرداری اور شرافت کی پناہ والے شیخ فرید کی طرف لکھا ہے:-

ثَبَّتَكُمُ اللهُ عَلَى جَادَةِ آبَائِكُم الْكِرَامِ عَلَى اَوَّلِهِمْ وَ اَفْضَلِهِمْ اَوَّلاً وَ عَلَى بَوَاقِيهِمُ ثَانِياً الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ

اللہ تعالی آپ کو اپنے بزرگ باپ دادوں کے راستہ پر ثابت . قدم رکھے اول ان سب میں سے اول اور افضل پر اور پھر ان میں سے باقیوں پر صلوٰۃ وسلام ہو۔ حق تعالیٰ کا وجود اور ایسے ہی ان کی وحدت بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی نبوت بلکہ جو کچھ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں سب بدیہی ہیں اور کسی فکر اور دلیل کے محتاج نہیں ہیں بشرطیکہ قوت مدرکہ ردی آفتوں اور باطنی مرضوں سے سلامت اور تندرست ہو کیونکہ ان امور میں نظر وفکر سے کام لینا قوت مدرکہ میں کسی علت و آفت کے موجود ہونے سے ہے لیکن مرض قلبی سے نجات پانے اور باطنی آنکھوں کے آگے سے پردہ دور ہو جانے کے بعد بداہت ہی بداہت ہے۔ مثلا صفراوی آدمی جب تک مرض صفرا میں گرفتار ہے قند اور نبات کی شیرینی اس کے نزدیک دلیل کی محتاج ہے لیکن اس بیماری سے خلاصی پا جانے کے بعد کسی دلیل کی حاجت نہیں اور یہ احتیاج جس کا مبدو بیماری کا ہوتا ہے بداہت کے مخالف نہیں ہے۔

بیچارہ جو ایک شخص کو دو دیکھتا ہے اور اس شخص کے ایک نہ ہونے کا حکم کرتا ہے معذور ہے اور میں بیماری کا ہونا اس شخص کے ایک ہونے کو بداہت سے خارج نہیں کرتا اور نہ ہی دلیل کی طرف محتاج کرتا ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ استدلال کا میدان بہت تنگ ہے اور دلیل کے ذریعے یقین کا حاصل ہونا بہت مشکل ہے۔ پس یقینی ایمان حاصل کرنے کیلئے دلی امراض کا دور کرنا ضروری ہے۔ صفراوی مزاج والے کو نبات وقند کی شیرینی کے یقین حاصل کرنے کیلئے صفراوی مرض کا دورکرنا اس بات سے نہایت ضروری ہے کہ نبات وقند کی شرینی کے یقین پر دلیل قائم کرے۔

بھلا دلیل سے اس کو کس طرح یقین حاصل ہو سکتا ہے جب کہ اس کا وجدان اور ذوق صفراوی بیماری کے باعث نبات کے کڑوا ہونے کا حکم کرتا ہے اور ایسے ہی حال ہے جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں کیونکہ نفس امارہ بالذات احکام شرعیہ کا منکر ہے اور بالطبع ان کے برخلاف حکم کرنے والا ہے۔ پس ان سچے احکام کے ساتھ بذریعہ دلیل کے یقین حاصل کرنا جب کہ استدلالی وجدان ان کے انکار کا حکم کرتا ہے۔ بہت دشوار ہے۔ پس نفس کا پاک کرنا نہایت ضروری ہے۔ بغیر تزکیہ کے یقین حاصل ہونا مشکل ہے ۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا تحقيق خلاص ہو گیا جس نے اس کو پاک کیا اور محروم رہا جس نے اس کو آلودہ کیا۔


پس ثابت ہوا کہ اس روشن شریعت اور ظاہر ملت کا منکر نبات کی مٹھاس کے منکر کی طرح ہے۔


خورشید نہ مجرم ارکسے بینا نیست
ترجمہ
: اگر کوئی ہے خود اندھا گناہ خورشید کا کیا ہے۔


پس سیر و سلوک اور تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے مقصود یہ ہے کہ باطنی آفتیں اور دلی امراض کہ جن کی نسبت فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ میں ارشاد کیا گیا ہے کہ دور ہو جائیں تا کہ ایمان کی حقیقت حاصل ہو جائے اور ان امراض و آفات کے باوجود اگر ایمان ہے تو صرف ظاہری اور رسمی طور پر ہے کیونکہ نفس امارہ کا وجدان اس کے برخلاف حکم کرتا ہے اور اپنے کفر کی حقیقت پر اڑا ہوا ہے ۔ اس قسم کے ایمان اور ظاہری تصدیق کی مثال ایسی ہے۔ جیسے قند و نبات کی مٹھاس کے ساتھ صفراوی مزاج والے کا ایمان کہ اس کا وجدان اس کے برخلاف گواہ ہے ۔ شکر کی شیرینی کے ساتھ حقیقی یقین کا حاصل ہونا مرض کی صفراوی کے دور ہو جانے کے بعد متصور ہے پس تزکیہ نفس اور اس کے اطمینان کے بعد ایمان حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور اس قسم کا ایمان زوال سے محفوظ ہے ۔ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ایسے ایمان والے لوگوں کے حق میں صادق ہے۔

شَرَّفَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ بِشَرُفِ هَذَا الْإِيْمَانِ الْكَامِلِ الْحَقِيقِى بِحُرُمَةِ النَّبِي الْأُمِي الْقُرْمِيْنِ عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ مَنَ الصَّلَوَات اَفْضَلُهَا وَ مَنَ التَّسْلِيمَاتِ اَكْمَلُهَا – الله تعالى اپنے نبی امی قریشی صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہم کو اس قسم کے کامل اور حقیقی ایمان سے مشرف فرمائے ۔ آمین ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا