مکتوب 48
عالموں اور طالب علموں کی تعظیم پر جو شریعت کے اٹھانے والے اور قائم رکھنے والے ہیں۔ ترغیب دینے میں سرداری اور شرافت کے پناہ والے شیخ فرید بخاری کی طرف لکھا ہے:
نَصَرَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ عَلَى الْأَعْدَاءِ بِحُرُمَةِ سَيّدِ الأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمُ الصَّلوةُ وَ التَّسْلِيمَاتُ وَ التَّحْيَاتُ الله تعالى سید الانبیاء صلى الله عليه وسلم کے طفیل آپ کو دشمنوں پر فتح دے۔
آپ کا بزرگ مرحمت نامہ جس سے فقرا کو نوازش فرمایا تھا اس کے مطالعہ سے شرف حاصل کیا۔ آپ نے مولا نا محمد قلیج کے خط میں لکھا تھا کہ طالب علموں اور صوفیوں کے لئے کچھ خرچ بھیجا گیا ہے ۔ صوفیوں پر طالب علموں کے ذکر کا مقدم کرنا آپ کی بلند ہمت نظر میں بہت ہی اچھا معلوم ہوا اور اس ضمن کے موفق کہ اَلظَّاهِرُ عُنْوَانُ الْبَاطِنِ ظاہر باطن کا نمونہ ہے۔ امید ہے کہ آپ کے باطن شریف میں بھی اس بزرگ جماعت کا صوفیوں پر مقدم رکھنا ظاہر ہوگا ۔ کیونکہ كُلُّ إِنَاءٍ يَتَرَشَّحُ بِمَا فِيهِ برتن سے وہی کچھ نکلتا ہے جو اس کے بیچ میں ہو اور طالب علموں کے مقدم سمجھنے میں شریعت کی ترویج ہے۔ شریعت کے اٹھانے والے یہی لوگ ہیں اور مصطفوی مذہب انہی کے ساتھ قائم ہے۔ کل قیامت کے روز شریعت کی بابت پوچھیں گے اور تصوف کی بابت کچھ نہ پوچھیں گے جنت میں داخل ہونا اور دوزخ سے بچنا شریعت کے حکم بجالانے پر منحصر ہے۔
انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام نے جو تمام مخلوقات میں سے بہتر ہیں۔ شرائع کی طرف دعوت کی ہے اور اپنی تمام زندگی میں اسی پر رہے ہیں اور ان بزرگواروں کی پیدائش سے مقصود ہی احکام شریعت کا لوگوں تک پہنچانا ہے۔ پس سب سے بڑی بھاری نیکی یہی ہے کہ شریعت کو رواج دینے اور اس کے حکموں میں سے کسی حکم کے زندہ کرنے میں کوشش کی جائے خاص کر ایسے زمانہ میں جب کہ اسلام کے نشان بالکل مٹ گئے ہوں۔ کروڑ ہا رو پیہ خدا کے رستہ میں خرچ کرنا اس کے برابر نہیں کہ شرعی مسائل میں سے ایک مسئلے کو رواج دیا جائے کیونکہ اس فعل میں انبیائے علیھم الصلوۃ والسلام کی اقتداء ہے جو بزرگ ترین مخلوقات ہیں اور اس فعل میں ان بزرگواروں کے ساتھ شریک ہونا ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ سب سے بڑھ کر نیکیاں انہی لوگوں کو عطا ہوئی ہیں اور کروڑ ہا روپیہ خرچ کرنا تو ان بزرگواروں کے سوا اوروں کو بھی میسر ہے اور نیز شریعت کے بجا لانے میں نفس کی کمال مخالفت ہے کیونکہ شریعت نفس کے برخلاف وارد ہوئی ہے اور مالوں کے خرچ کرنے میں تو کبھی نفس بھی موافقت کر لیتا ہے ۔ ہاں ان مالوں کے خرچ کرنے میں جو شریعت کی تائید اور مذہب کی ترویج کے لئے ہوں۔ بہت درجہ ہے اور اس نیت پر ایک حتیل کا خرچ کرنا کسی دوسری نیت سے کئی لاکھ خرچ کرنے کے برابر ہے۔
یہاں کوئی یہ سوال نہ کرے کہ طالب علم گرفتار کو صوفی آزاد سے کیوں مقدم کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے ابھی بات کی حقیقت کو معلوم نہیں کیا ہے ۔ طالب علم باوجود گرفتاری کے خلقت کی نجات کا سبب ہے کیونکہ احکام شرعی کی تبلیغ اس سے حاصل ہے ۔ اگر چہ اس سے خود اس کو کچھ نفع نہیں ہے اور صوفی نے باوجود آزادی کے اپنے نفس کو خلاص کیا ہے۔ خلقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس شخص پر بہت لوگوں کی نجات وابستہ ہو ۔ وہ اس شخص سے بہتر ہے جو صرف اپنی نجات کے خیال میں ہے ہاں وہ صوفی جوفنا و بقا اور سیر عنالله و باللہ کے بعد عالم کی ا طرف راجع ہو اور خلق کی دعوت میں مشغول ہو وہ مقام نبوت سے حصہ حاصل رکھتا ہے اور شریعت کے حکم پہنچانے والوں میں داخل ہے اور علمائے شریعت کا حکم رکھتا ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهُ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ الہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالی
بڑے فضل والا ہے۔