2

مکتوب 219: اس بیان میں کہ آدمی اپنی نادانی سے اپنی ظاہری مرض کے دور کرنے کی فکر میں لگا ہے


مکتوب 219

اس بیان میں کہ آدمی اپنی نادانی سے اپنی ظاہری مرض کے دور کرنے کی فکر میں لگا ہے اور باطنی مرض سے جو دل کی گرفتاری سے مراد ہے، غافل پڑا ہے اور اس کے مناسب بیان میں میرزا ایرج کی طرف لکھا ہے ۔

عَصَمَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ عَمَّا يَعْضِمُكُمْ وَصَانَكُمْ عَمَّا شَانَكُمْ بِحُرُمَةِ سَيّدِ الاَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ أَجْمَعِينَ مِنَ الصَّلَوَاتِ اَتَمُهَا وَمِنَ السَّسُلِيْمَاتِ اَكْمَلُها: حق تعالی سید الاولین و آخرین صلى الله عليه وسلم کے طفیل آپ کو اس چیز سے بچائے جو آپ کو داغدار کرے اور اس چیز سے محفوظ رکھے جو آپ کو عیب لگائے ۔

اے سعادت و شرافت کے نشان والے آدمی کو جب کوئی ظاہری مرض لگ جاتی ہے اور اس کے کسی عضو کو آفت پہنچتی ہے تو بہت کوشش اور مبالغہ کرتا ہے تا کہ وہ مرض دفع ہو جائے اور وہ آفت دور ہو جائے لیکن مرض قلی نے جو ماسوائے حق کی گرفتاری سے مراد ہے اس پر اس طرح غلبہ پایا ہوا ہے جو نزدیک ہے کہ اس کو ہمیشہ کی موت تک پہنچا دے اور ہمیشہ کے عذاب میں اس کو گرفتار کر دے۔ اس کے دور کرنے کا فکر نہیں کرتا اور اس کے دفع کرنے میں کوشش نہیں کرتا اور اگر اس گرفتاری کو مرض نہیں جانتا تو پرلے درجے کا احمق ہے اور اگر جانتا ہے اور پھر فکر نہیں کرتا تو بڑا ہی پلید ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس مرض کے سمجھنے کے لئے عقل معاد درکار ہے کیونکہ عقل معاش اپنی کو تاہ اندیشی سے ظاہر بینی پر لگی ہوئی ہے اور عقل معاش جس طرح باطنی امراض کو فانی عیش وعشرت کے باعث مرض خیال نہیں کرتی۔ اسی طرح عقل معاد بھی ظاہری امراض کو عاقبت کے ثوابوں کی وجہ سے مرض نہیں جانتی۔ عقل معاش کی نظر کوتاہ ہے اور عقل معاد کی نظر تیز ۔

عقل معاد انبیاء و اولیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے نصیب ہے اور عقل معاش دولت مندوں اور دنیا داروں کا حصہ ہے اور ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ اسباب جو عقل معاد کو برانگیختہ کرنے والے ہیں ، موت کا ذکر ۔ آخرت کے احوال کا یاد کرنا اور ان لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا ہے جو آخرت کی دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔

داد یکم تر از گنج مقصود فشانے
ما اگر نه رسیدیم تو شاید برسی


ترجمہ: تجھے تنج مقصود بتلایا ہم نے
ملا کر نہیں ہم کو شاید تو پالے

جاننا چاہئے کہ جس طرح ظاہری مرض، احکام شرعیہ کے بمشکل ادا ہونے کا باعث ہے۔ مرض باطن بھی اسی دشواری کو مسلتزم ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَاتَدُ عُوهُمْ إِلَيْهِ مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے بہت بھاری ہے اور فرماتا ہے وَإِنَّهَا لكَبِيرَة إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِینَ بیشک نماز بھاری ہے مگر خاشعین پر ۔

ظاہری مرض میں قویٰ اور اعضاء کی کمزوری اس دشواری کو مستلزم اور مرض باطنی میں یقین کا ضعف اور ایمان کی کمی اس دشواری کا موجب ہے ورنہ تکالیف شرعی میں سراسر آسانی اور سہولت ہے۔ آیت کریمہ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تنگی نہیں چاہتا اور آیت کریمہ يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَ خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا اله تم سے تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے، دونوں اس مطلب پر گواہ ہیں۔

خورشید نہ مجرم ار کے بینا نیست
ترجمہ: اگر کوئی نہیں بینا گناہ سورج کا ہے پھر کیا

پس اس مرض کے دور کرنے کا فکر ضروری ہے اور حاذق طبیبوں کی طرف التجا کرنا فرض عین ہے۔ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ قاصدوں کا کام حکم پہنچا دینا ہے۔

والسلام –

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا