2

مکتوب 224: آداب کی رعایت کرنے اور آزار کے ظن دور کرنے میں


مکتوب 224

آداب کی رعایت کرنے اور آزار کے ظن دور کرنے میں جس کا وہم ہوا تھا اور احتیاط کا امر کرنے اور تعلیم طریقت کے بارہ میں تاکید کرنے اور فقر کی سختی اور نامرادی برداشت کرنے اور بعض ان نصیحتوں اور تنبیہوں کے بیان میں جو اس مکتوب کی پشت پر ملا یار محمد قدیم کی طرف لکھیں تھی ۔ میر محمد نعمان بدخشی کی طرف لکھا ہے:۔


میرے سعادت مند بھائی یعنی سیادت پناہ میر محمد نعمان کا مکتوب شریف موصول ہوا ۔ ان مقدمات کا مضمون جو آپ نے ترتیب دیئے تھے اور ان مکتوب کا مطلب جو آپ نے لکھے تھے۔ واضح ہوا۔ لوگ آپ کو زمانہ کا عاقل کہتے ہیں پھر اس قسم کی باتیں اور اس شخص کے ساتھ جس سے چارہ نہیں ہے درمیان لانی کیا مناسب ہیں جبکہ اس سے قطع نہیں کر سکتے اور مفارقت نہیں حامل کر سکتے۔ باوجود ان باتوں کے خیال نہ کریں کہ اس قسم کی باتوں سے فقیر کے دل میں کسی قسم کا غبار آیا ہو جس کا انجام آزار ہو۔ چہ جائیکہ بیزاری کی نوبت پہنچے ۔ آپ کی خوبیاں نظر کے سامنے ہیں اور آپ کی لغزشیں اعتبار سے ساقط ہیں۔ کسی طرح اپنے دل کو پریشان نہ رکھیں اور کسی وجہ سے اس طرف کا آزار تصور نہ کریں کیونکہ کسی وجہ سے آزار واقع نہیں ہے اور آزار کیسے متصور ہو جب کہ آزار کا موجب مثفی ہے ۔ وہ امور جو بشریت کے لحاظ سے بھول چوک کر سر زد ہوں ۔ مواخذہ کے لائق نہیں ہیں۔ آزار کا وہم دل سے دور کر کے طریقت کی تعلیم دینے اور طالبوں کے فائدہ پہنچانے میں سرگرم رہیں اور استخاروں کا حکم اس امر کی تاکید کیلئے ہے نہ کہ اس امر کی نفی کے لئے ۔ کیونکہ جب شیطان لعین اور نفس بدترین اس مسکین کی گھات میں لگے ہوئے ہیں تو پھر بڑی احتیاط اور تاکید سے کام لینا چاہئے ایسانہ ہو کہ مکر و حیلہ سے پھسلا دیں اور اپنے ڈھکوسلوں اور فریبوں سے برائیوں کو نیکیوں کی صورت میں ظاہر کریں۔

اور بزرگوں نے فرمایا ہے کہ دشمن لعین جب طاعت ونصیحت کے رستہ سے آئے تو اس کا دفع کرنا بہت مشکل ہے۔ پس ہمیشہ روتے اور التجا کرتے رہیں اور بڑی عاجزی وزاری کے ساتھ حق تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں کہ اس راہ سے آپ کی خرابی اور استدراج مطلوب نہ ہو ۔ استقامت کا طریق یہی ہے جو سعادت ابدی کی طرف رہنمائی کرے۔


دوسرا یہ امر ہے کہ فقر و نامرادی اس گروہ کا جمال اور حضرت سید الکونین صلى الله عليه وسلم کی اقتدا ہے۔ حضرت حق تعالیٰ اپنے کمال کرم سے اپنے بندوں کی روزی کا ذمہ دار ہوا ہے اور ہم کو اور آپ کو اس فکر و تردو سے فارغ کر دیا ہے جس قدر آدمی زیادہ ہونگے ۔ اسی قدر رزق زیادہ ہوگا۔ آپ جمعیت کے ساتھ اس حق تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے میں متوجہ ہوں اور متعلقین کا غم حق تعالٰی کے کرم کے حوالہ کریں۔ والباقی عند التلاقی ۔

بعض یاروں نے جو اس طرف آئے تھے ظاہر کیا کہ ابھی تک آزار کا وہم میر کے دل میں متمکن ہے۔ اس لئے تا کید اور مبالغہ سے لکھا گیا ہے کہ آزار کے وہم کو دور کر دیں ۔

دوسرا یہ کہ ایک خط ملا یار محمد قدیم کی طرف لکھا تھا جو پند و نصیحتوں پر مشتمل تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کا مضمون اس کی طبیعت کے پسند آئے یا نہ آئے پرواہ نہیں ۔ وہ لوگ جو اس فقیر کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی غلطی اور خطا کو انہیں نہ جتلائے اور حق کو باطل سے جدا نہ کرے تو اپنے ذمہ سے کس طرح بری ہوگا اور آخرت میں کیا منہ دکھائے گا۔ آپ اس سے کہہ دیں ۔

من آنچه شر بلاغ است با تو میگویم
تو خواه از کنم پند گیر و خواه ملال


ترجمہ: جو حق کہنے کا ہے کہتا ہوں تجھ سے اے میرے مشفق
نصیحت تجھ کو آئے اس سے یا تجھ کو ملال آئے


جانا چاہئے کہ شیخ بننے اور حق کی طرف خلق کو دعوت کرنے کا مقام بہت ہی عالی ہے ۔ آپ نے سناہوگا کہ الشَّيْخُ فِي قَوْمِ: كَالنَّبِيِّ فِي أُمنه شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسا نبی اپنی امت میں ۔ ہر بے سروسامان کو اس بلند مرتبہ سے کیا منا سبت ہے ۔

گدائے مرد میدان کے شود
پشته آخر سلمان کے شود

ترجمہ : گدا ہر اک نہیں ہے مرد میداں
کبھی مچھر نہیں بنتا سلیماں


احوال و مقامات کا مفصل علم ہونا اور مشاہدات و تجلیات کی حقیقت کا پہچاننا اور کشوف والہامات کا حاصل ہونا اور واقعات کی تعبیر کا ظاہر ہونا ۔ اس بلند مقام کے لوازم سے ہے۔ و بِدُونِهَا خَرُطُ الْقَتَادِ اور ان کے بغیر بے فائدہ رنج و تکلیف ہے ۔


حاصل کلام یہ ہے کہ طریقت کے بزرگوار قدس سرہم بعض مریدوں کو پیشتر اس کے کہ وہ مقام شیخی تک پہنچیں، کسی مصلحت اور بہتری کیلئے ایک قسم کی اجازت دے دیتے ہیں اور ایک طرح تجویز فرماتے ہیں کہ طالبوں کو طریقہ دکھا ئیں تا کہ احوال و واقعات پر اطلاع پائیں۔

اس قسم کی تجویز میں شیخ مقتدا کو لازم ہے کہ اس مرید مجاز کو اس کام میں بڑی احتیاط سے کام کرنے کا امر کرے اور تاکید کے ساتھ غلطی کے مواد کو ظاہر کر دے اور بار بار ان کے نقص پر اطلاع دے اور مبالغہ کے ساتھ ان کا ناقص ہونا ظاہر کر دے۔ اس صورت میں اگر شیخ حق کے ظاہر کرنے میں سستی کرے تو خیانتی ہے اور اگر مرید کو وہ باتیں بری معلوم ہوں تو وہ بد قسمت ہے۔ کیا نہیں جانتا کہ حق تعالیٰ کی رضامندی شیخ کی رضامندی سے وابستہ ہے اور حق تعالیٰ کا غضب شیخ کے غضب پر موقوف ہے۔ اس پر کیا بلا آ پڑی وہ نہیں سمجھتا کہ ہم سے قطع کرنا اس کو کہاں تک پہنچا دے گا اور اگر ہم سے قطع کرے گا تو اور کس سے جاملے گا اور اگر نعوذ باللہ اس قسم کا کوئی امر اس کے دل میں راہ پا گیا ہو تو بے توقف اس کو کہہ دیں کہ توبہ و استغفار کرے اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور زاری کرے کہ اس ابتلا وفتنہ عظیم میں اس کو مبتلا نہ کرے اور اس خطر ناک بلا و آزمائش میں اس کو گرفتار نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ یاروں کی اس بے پروائی اور اضطراب سے کسی قسم کا غبار اور آزار فقیر کے دل میں داخل نہیں ہوا۔ اس سبب سے امیدوار ہے کہ تمام کاموں کا انجام بخیر ہوگا اور باقی احوال و اوضاع کو برا در سعادت مند مولانا صالح محمد مفصل بیان کریں گے اور آپ بعض شبہوں کے مقام کو ان سے دریافت کرلیں گے۔ وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيمَاتُ اَتَمَّهَا وَأَكْمَلْهَا اور سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اور حضرت مصطفی صلى الله عليه وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا