2

مکتوب 234: اس بیان میں کہ واجب الوجود کی حقیقت وجود محض ہے


مکتوب 234

اس بیان میں کہ واجب الوجود کی حقیقت وجود محض ہے جو ہر چیز و کمال کا منشا ہے اور ممکنات کی حقیقتیں عدم محض ہیں جو ہر شر نقص کا مبدء ہیں اور مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ کے معنی میں اور تجلی ذاتی کے بیان میں جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے بڑھ کر ہے اور آیت کریمہ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالارْضِ کے تاویلی معنوں اور اس کے مناسب بیان میں مع سوالوں اور جوابوں کے جو اس مقام کی توضیح کے متعلق ہیں اور مع تنبیہات کے جو اس مطلب کی تشریح کے لائق ہیں ۔ حقائق کو جانے والے معارف کے پہنچانے والے عالم ربانی عارف سبحانی مخدوم زادہ کلاں یعنی شیخ محمد صادق ( خدا ان کو سلامت اور باقی رکھے اور اعلیٰ مقصود تک پہنچائے ) کی طرف صادر فرمایا ہے:


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

خداوند بیچون کی حمد اور پیغمبر رہنمون کے درود کے بعد میرے فرزند کو معلوم ہو کہ حق سبحانہ کی حقیقت وجود محض ہے کہ اور کوئی امر اس کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہے اور وہ وجود تعالیٰ ہر جز و کمال کا منشا اور ہر حسن و جمال کا مبدء ہے اور جزئی حقیقی اور بسیطی ہے۔ جس کی طرف ترکیب ہرگز راہ نہیں ہے نہ ذہنی طور پر نہ خارجی طور پر اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا تصور میں آنا محال ہے اور ذات تعالیٰ پر از روئے مواطات کے محمول ہے نہ از روئے اشتقاق کے اگر چہ عمل کی نسبت کو بھی اس مقام میں فی الحقیقت گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ تمام نسبتیں وہاں ساقط ہوگئی ہیں اور وہ وجود جو عام د مشترک ہے وہ اس وجود خاص کے ظلوں میں سے ایک ظل ہے اور یہ کل ذات تعالی و تقدس پر محمول ہے اور اشیاء پر تشکیک کے طور پر از روے اشتقاق کے نہ ازردے مواطات کے اور اس ظل سے مراد تنزلات کے مرتبوں میں حضرت وجود تعالی و تقدس کا ظہور ہے اور اس ظل کے افراد میں سے اولی واقدام واشرف وہ فرد ہے جو ذات تعالی پر از روئے اشتقاق کے محمول ہے۔ پس اصالت کے ہر مرتبہ میں اَللَّهُ تَعَالَى وَجَود ” کہہ سکتے ہیں نہ کہ اللَّهُ تَعَالَى مَوْجُود اور اس ” ظل کے مرتبہ میں اللہ تعالیٰ وجود صادق ہے نہ کہ اللهُ تَعَالَى مَوْجُود اور چونکہ حکما ، اور تَعَالَى صوفیہ کے ایک گروہ نے جو وجود کی غیبت کے قائل ہیں اور اس فرق کی حقیقت سے واقف نہیں ہوئے اور کل کو اصل سے جدا نہیں کیا حمل اشتقاق اور حمل مواطات دونوں کو ایک مرتبہ میں ثابت کیا ہے۔ اور حمل اشتقاق کے صحیح کرنے میں بے جا تکلف اور حیلہ کے محتان ہوئے ہیں اور حق وہی ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کے الہام سے ثابت و تحقیق کیا ہے اور یہ اصالت وظلیت تام حقیقی صفات کی اصالت وظلیت کی طرح ہے۔ کیونکہ ہر مرتبہ اصالت میں جو اجمال اور غیب الغیب کا مقام ہے۔ ان صفات کا حمل کرنا مواطات کے طریق پر ہے نہ اشتقاق میں مغائرت ظلیت کے مرتبوں میں ہوتی ہے اور اس جگہ کوئی ظلیت نہیں ۔ کیونکہ وہ تعین اوّل سے کئی درجے برتر ہے۔ اس لئے کہ نسبتیں اس تعین میں اجمالی طور پر ملحوظ ہیں اور اس مقام میں اشیاء میں سے کسی شے کا کسی طرح کا ملاحظہ نہیں ہے اور مرتبہ ظل میں جو اس اجمال کی تفصیل ہے۔ حمل اشتقاق صادق ہے نہ حمل مواطات ۔ لیکن ان صفات کی عینیت اس مرتبہ میں وجود تعالیٰ کی عینیت کی فرع ہے جو ہر خیر و کمال کا مبدء اور ہر حسن و جمال کا منشا ہے اور اس فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں جس جگہ وجود کی عینیت کی نفی کی ہے۔ اس سے وجود ظلی مرادر کھنی چاہئے ۔ جو حمل اشتقاق کا صیح کرنے والا ہے اور یہ وجود ظلی بھی آثار خارجیہ کا مبدء ہے۔ پس وہ ماہیتیں جو مراتب موجودات میں سے ہر مرتبہ میں اس وجود کے متصف ہوں خارجیہ ہونگے ۔ فَافُهَمُ فَإِنَّهُ يَنْفَعُكَ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْمَوَاقِع پر سمجھ لے کیونکہ بہت جگہ تجھے نفع دے گا ۔ پس صفات حقیقیہ بھی موجودات خارجیہ ہونگی اور ممکنات بھی خارجہ میں موجود ہوں گی۔


اے فرزند ! اس پوشیدہ سر کو سن کہ کمالات ذاتیہ حضرت ذات تعالیٰ کے مرتبہ میں حضرت ذات کا عین ہیں۔ مثلا علم کی صفت اس مقام میں حضرت ذات کا عین ہے اور ایسے ہی قدرت اور ارادہ اور تمام صفات کا حال ہے اور نیز اس مقام میں حضرت ذات بتمامہ علم ہے اور ایسے ہی بتمامہ قدرت ہے نہ یہ کہ حضرت ذات کا بعض علم ہے اور بعض قدرت کیونکہ وہاں بعض ہونا اور جز و بنبنا محال ہے اور ان کمالات نے جو گویا حضرت ذات سے متمزع اور الگ ہیں حضرت علم کے مرتبہ میں تفصیل پائی ہے اور تمیز پیدا کی ہے اور حضرت ذات تعالی و تقدس اپنی وحدانیت کی اسی اجمالی صرافت پر باقی ہے۔ بعد ازاں اس مقام میں کوئی چیز نہیں رہی جو اس تفصیل میں داخل نہ ہوئی ہو اور متمیز نہ ہوئی ہو۔ بلکہ تمام وہ کمالات جن میں سے ہر ایک ذات تعالی کا عین ہے مرتبہ علم میں آگئی ہیں اور ان مفصلہ کمالات نے دوسرے مرتبہ میں وجود ظلی پیدا کر کے صفات نام حاصل کیا ہے اور حضرت ذات کے ساتھ جو ان کا اصل ہے قیام پیدا کیا ہے اور اعیان ثابتہ فصوص علیہ الرحمہ کے نزدیک انہی مفصلہ کمالات سے مراد ہے جنہوں نے خانہ علم میں وجود علمی حاصل کیا ہے اور فقیر کے نزدیک ممکنات کے حقائق عدم محض ہیں۔ جو بمع ان کمالات کے جوان میں منعکس ہوئے ہیں ۔ ہر شر نقص کا مبدء و مادی ہیں ۔ یہ بات تفصیل چاہتی ہے کہ گوش ہوش سے سننا چاہئے ۔

خدا تجھے ہدایت دیدے۔

جان لے کہ عدم وجود کے مقابل ہے اور اس کی نقیض ہے۔ پس عدم بالذات ہر شر نقص کا منشا بلکہ ہر شر وفساد کا عین ہوگا۔ جس طرح وجود مرتبہ اجمال میں ہر چیز و کمال کا عین ہے اور جس طرح حضرت وجود اصل الاصل مقام ذات تعالیٰ پر اشتقاق کے طور پر محمول نہیں ہے۔ اس طرح عدم بھی اس وجود کے مقابل ہے۔ ہیت عدمیہ پر اشتقامی کے طریق پر محمول نہیں ہے ۔ اس مرتبہ میں اس باہیت کو معدوم نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ عدم محض ہے اور تفصیل علمی کے مرتبوں میں کہ جس کے ساتھ عدمیہ میں تعلق پایا ہے اس ماہیت کی جزئیات عدم سے متصف ہو جاتی ہیں اور عمل اشتقاق ان میں ماہیت درست آتا ہے اور عدم کا مفہوم کہ گویا اس اجمالیہ عدمیہ ماہیت سے منتزع اور الگ ہے اور اس ماہیت عدمیہ کے لئے کل کی مانند ہے۔ اس ماہیت عدمیہ کے تمام مفصلہ افراد پرا شتقاق کے طریق پر حمل پاتا ہے۔ جیسے کہ آگے آئے گا۔ اور چونکہ وہ عدم مرتبہ اجمال شر و فساد کا عین تھا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر شر دوسرے شر سے جدا اور ہر فساد دوسرے فساد سے الگ ہو گیا۔ جیسے کہ وجود کی جانب میں اجمال کے مرتبہ میں حضرت وجود ہر چیز و کمال کا مین تھا اور تفصیل علمی کے مرتبہ میں ہر کمال سے الگ اور ہر چیز دوسری چیز سے جدا ہوگی ۔ پس ان وجود یہ کمالات میں سے ہر ایک کمال ان نقائص عدمیہ میں سے ہر ایک نقص میں جو اس کے مقابل ہے خانہ منعکس ہوا ہے اور ایک دوسرے کی علمیہ صورتیں باہم مل جل گئی ہیں اور وہ عدمات جوشر و نقائص سے مراد ہیں بمع ان کمالات منعکر کے ممکنات کی ماہیتیں ہیں ۔ حاصل کلام یہ کہ وہ عد مات ان ماہیتوں کے اصول و مواد ہیں اور وہ کمالات ان میں حلول کی ہوئی صورتوں کی مانند ہیں ۔

پس اعیان ثابتہ اس فقیر کے نزدیک ان عدمات اور کمالات سے مراد ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ باہم مل جل گئے ہیں اور جب قادر مختار جل شانہ نے چاہا ان عدمیہ ماہیات کو بمع ان کے لوازم اور وجود یہ ظلال کے کمالات کے جوان میں حضرت علم میں منعکس ہو کر ممکنات کی ماہیات نام پایا ہے۔ اس وجود ظلی کے رنگ میں کہ موجودات خارجیہ بنایا اور آثار خارجیہ کا مبدء کر دیا۔ جاننا چاہئے کہ صور علمیہ کا جو ممکنات کے اعیان ثابتہ اور ان کی ماہیات سے مراد ہیں رنگدار کرنا ان معنوں میں نہیں ہے کہ صور علمیہ نے خانہ علم سے نکل کر وجود خارجی پیدا کیا ہے کیونکہ یہ محال ہے اور جہل کو ستلزم ہے ۔ تَعَالَى اللهُ عَنْ ذَلِكَ عَلُوا كَبِيراً اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے بلکہ ان معنوں میں ہے کہ ممکنات نے خارج میں ان صور علمیہ کے مطابق وجود پیرا کیا ہے اور وجود علمی کے سوائے اس وجود علمی کے موافق وجود خارجی حاصل کیا ہے۔ جیسے کہ کاریگر نجار تخت کی صورت کو ذہن میں تصور کر کے خارج میں اس کا اختراع کرتا ہے۔ اس صورت میں تخت کو وہ ذہنیہ صورت جو حقیقت میں اس تخت کی ماہیت ہے۔ اس نجار کے خانہ علم سے باہر نہیں نکلی ۔ بلکہ خارج میں اس تخت نے اس صورت ذہبیہ کے مطابق وجود پیدا کیا ہے۔ فانہم


جاننا چاہئے کہ ہر عدم نے کمالات وجودیہ کے ظلال میں سے ایک ظل کے ساتھ جو اس کے مقابل ہے اور اس میں منعکس اور منصبغ ہے۔ خارج میں وجود ذہنی پیدا کیا ہے ۔ بخلاف عدم صرف کے کہ وہ ان ظلال سے متاثر نہیں ہوا اور ان کا رنگ نہیں پکڑا ۔ اور وہ کیسے رنگ پکڑے جب کہ وہ ان ظلال کے مقابل نہیں ہے۔ اگر مقابلہ رکھتا ہے تو حضرت وجود سے صرف رکھتا ہے۔

پس عارف تام المعرفت جب حضرت وجود سے ترقی کر کے عدم صرف کے مقام میں نزول کرتا ہے تو اس کے وسیلہ سے یہ عدم بھی اس حضرت سے انصباغ پیدا کر کے مزین و مستحسن ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس عارف کے تمام عدم کے مراتب نے جو فی الحقیقت اس کی تمام اجمالی اور تفصیلی ذاتیہ مراتب ہیں ۔ حسن و حیزیت پیدا کی ہے اور کمال حاصل کیا ہے اور یہ حیزیت جو تمام ذاتیہ میں سرایت کرتی ہے۔ اس قسم کے عارف سے مخصوص ہے اور اس کے غیر کے لئے اگر خیریت نے سرایت کی ہے تو وہ اس کے اعدام ذاتیہ کے بعض تفصیلہ مراتب تک ہی منحصر ہے یا بلحاظ اختلاف درجات کے اس کے تمام تفصیلی مراتب میں پھیلی ہوتی ہے اور یہ قسم اخیر بھی نادر الوجود ہے ۔ لیکن عدم کے مرتبہ اجمال میں جو شر و نقص کا عین ہے۔ اور عارف کے سوا اور کسی نے حیزیت کی ہونہیں پائی اور نہ ہی حسن کا کوئی رنگ پیدا کیا ہے۔

پس ناچارایسے عارف کا جو تیزیت تام سے متصف ہے شیطان بھی حسن اسلام پیدا کر لیتا ہے اور اس کا نفس امارہ مطمنہ ہو کر اپنے مولیٰ سے راضی ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید المرسلین لیہ وعلیہم الصلوۃ والتسلیمات نے فرمایا ہے کہ اسلم شَيْطَانِی میرا شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے۔


سبحان اللہ ! وہ معارف جو اس فقیر حقیر سے بے ارادہ و بے تکلف ظاہر ہورہے ہیں ۔ اگر ا بہت سے لوگ جمع ہو کر ان کی تصویر میں کوشش کریں تو معلوم نہیں کہ میسر ہو سکے۔ فقیر کا یقین ہے کہ ان معارف کا بہت سا حصہ حضرت مہدی موعود علیہ الرضوان کے نصیب ہوگا۔


اگر پادشاه بردر پیرزن
بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن


ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطاں
تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشاں


فَتَبَارِكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ پس کیا ہی بزرگ اور بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جو بہتر پیدا کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔


پس ثابت ہوا کہ ممکنات ذوات اور اصل عدمات ہیں کہ وجودی کمالات کے ظلال نے ان میں منعکس ہو کر ان کو مزین کر دیا ہے۔ پس ناچار ممکنات بالذات ہر شر وفساد کا مادی اور ہر سود نقص کی جائے پناہ ہوئیں اور ہر خیر و کمال جو ان میں تعبیر اور پوشیدہ فرمایا ہے، وہ عاری ہے جو حضرت وجود سے جو خیر محض ہے فائز ہوا ہے ۔ مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسک ( جو تجھے بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تجھے برائی پہنچے وہ تیر انفس سے ہے ) اس مضمون کی شاہد ہے اور جب خداوند تعالی کے فضل سے یہ دید غلبہ پا جاتی ہے اور اپنے کمالات کو ٹھیک اسی طرف دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو شر محض معلوم کرتا ہے اور خالص نقص جانتا ہے اور کوئی کمال اپنے آپ میں مشاہدہ نہیں کرتا۔ اگر چہ انہ کاس کے طریق پر ہو۔ اس شخص کی طرح جو کہ ننگا ہو اور اس نے عاریت کا لباس پہنا ہو اور یہ دید عاریت اس پر اس قدر غالب آ جائے کہ وہ اپنے خیال میں اپنا سارا لباس اس لباس کے مالک کا سمجھے تو بالضرور وہ شخص اپنے آپ کو ذوق میں نکا معلوم کرے گا۔ اگر چہ عاریت درمیان واسطہ ہے۔ اس دید کا صاحب مقام عبد بیت سے شرف ہوتا ہے جو تمام کمالات ولایت سے برتر ہے۔


تنبیہ: یہ خیر وشر اور نقص و کمال کا اجتماع جو در حقیقت وجود عدم کا اجتماع ہے تین یسین کی قسم سے ہے کہ تو اس کو محال جانے کیونکہ وجود صرف کی نقیض عدم صرف ہے اور ان ظلی مراتب نے جس طرح وجود کی جانب میں اصل کی بلندی سے تنزلات کی پستی میں نزول فرمایا ہے۔ اسی طرح عدم کی جانب میں بھی ان ظلی مراتب نے عدم صرف کی پستی سے اوپر کی طرف عروج کیا ہے۔ ان کا اجتماع عناصر متضاد کے اجتماع کی طرح ہے کہ ہر ایک کے ضد یہ غلبہ اور تیزی کو توڑ کر ان کو جمع فرمایا ہے ۔ فَسُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الظُّلُمَةِ وَالنُّورِ بس پاک ہے وہ ذات جس نے ة اندھیرے اور نور کو جمع کر دیا۔

اگر کہا جائے کہ تو نے اوپر عدم صرف کے لئے بھی وجود صرف کے ساتھ جو اس کی ضد ہے منصبغ اور رہ گزار ہونے کا حکم کیا ہے ۔ پس اجتماع نقیضین پیدا ہوا۔ ا


اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ دو نقیضوں کا جمع ہونا ایک محل میں محال ہے لیکن ایک نقیض کا دوسرے نقیض کے ساتھ قیام کرنا اور ایک دوسرے سے متصف ہونا محال نہیں ہے۔ جیسا کہ معقول والوں نے کہا ہے کہ وجود معدوم اور وجود کا عدم کے ساتھ متصف ہونا محال نہیں ہے۔ پس اگر عدم موجود ہو اور وجود کے ساتھ رنگا جائے تو کیوں محال ہو گا تو اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ عدم کے مفہوم کو معقولات ثانیہ سے کہا ہے لیکن اگر عدم کے افراد میں سے کوئی فرد وجود سے متصف ہو جائے تو کیا فساد ہے جس طرح معقول والوں نے وجود کے بارے میں اشکال کے طریق پر کہا ہے کہ وجود کو چاہئے کہ واجب الوجود کی ذات کا عین نہ ہو کیونکہ وجود معقولات ثانیہ سے ہے جو وجود خارجی نہیں رکھتا اور واجب الوجود کی ذات خارج میں موجود ہے پس مین نہ ہوگا اور اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وجد کا مفہوم معقولات ثانیہ سے ہے نہ کہ اس کی جزئیات۔ پس اس کی جزئیات میں سے جزئی وجود خارجی کے منافی نہ ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ خارج میں موجود ہو ۔


سوال: پہلی تحقیق سے معلوم ہوا کہ صفات حقیقیہ کا وجود ظلال کے مرتبوں میں ہے اور مرتبہ اصل میں ان کا کوئی وجود حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اہل حق شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کی رائے کے مخالف ہے کیونکہ وہ صفات کو کسی وقت ذات مقدس سے جدا نہیں جانتے اور ممتنع الانفکاک یعنی ان کا ذات سے جدا ہونا محال تصور کرتے ہیں ۔

جواب : اس کا یہ ہے کہ اس بیان سے انفکاک کا جواز لازم نہیں آتا ۔ کیونکہ یہ کل اس اصل کے لازم ہے ۔ پس انفکاک نہ رہا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ وہ عارف جس کی توجہ کا قبلہ احدیت ذات ہے اور اسماء وصفات میں سے کچھ اس کے مدنظر نہیں ہے۔ اس مقام میں ذات تعالی ہی کو پاتا ہے اور صفات سے کچھ ملحوظ نہیں ہوتا نہ یہ کہ صفات اس وقت حاصل نہیں ہیں۔ پس حضرت ذات تعالی و تقدس سے صفات کا الگ ہونا نہ ہی عارف کے ملاحظہ کے اعتبار سے ثابت ہوا ہے اور نہ بھی حقیقت امر کے اعتبار سے تا کہ اہلسنت و جماعت کے مخالف ہو۔ فاضہم ۔


اس بیان سے مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچان لیا ) کے معنی بھی ظاہر ہو گئے کیونکہ جس نے اپنی حقیقت کو شرارت و نقص کے ساتھ پہچان لیا اور جان لیا کہ ہر خیر و کمال جو اس میں پوشیدہ کیا گیا ہے۔ وہ حضرت واجب الوجود کی طرف سے عاریت کے طور پر ہے۔ پس وہ ضرور ہی حق سبحانہ کو خیر و کمال اور حسن و جمال سے پہچان لے گا۔ اس تحقیقات سے آیت کریمہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کے تاویلی معنی بھی واضح ہو گئے کیونکہ جب ظاہر ہو چکا کہ ممکنات سب کے سب عدمات ہیں جو سراسر ظلمت و شرارت ہیں اور ان میں خیر و کمال اور حسن و جمال حضرت وجود کی طرف سے جو نفس ذات تعالٰی ہے اور ہر خیر و کمال اور حسن و جمال کا مین ہے تو بالضرور آسمانوں اور زمینوں کا نور حضرت وجود ہی ہوگا جو واجب تعالی و تقدس کی حقیقت ہے اور چونکہ یہ نور آسمانوں اور زمین میں ظلال کے واسطہ سے ہے اس لئے ان وہم کرنے والوں کے وہم کو دور کرنے کے لئے جو بے واسطہ سمجھتے ہیں۔ اس نور کے لئے مثال بیان کی اور اس طرح فرما یا مَثَلُ نُورِهِ كَمِشُكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحَ الْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ إلى آخر الآیۃ کریمہ تا کہ واسطوں کا ثبوت ہو جائے اور اس آیت کریمہ کے تاویلی معنی مفصل طور پر انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور جگہ پر لکھے جائیں گے کیونکہ اس میں سخن کی بہت مجال ہے اور یہ مکتوب اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں رکھتا اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ آیت کریمہ کے تاویلی معنی ہیں اس لئے کہا ہے کہ تفسیری معنی نقل و سماع پر مشروط ہیں ۔ مَنْ فَسَّرَ الْقُرْآنَ بِرَأيهِ فَقَدْ كَفَرَ (جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کی وہ کا فر ہو گیا ) تم نے سناہوگا اور تاویل میں صرف احتمال کافی ہے ۔ بشرطیکہ کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو پس ثابت ہوا کہ ممکنات کے ذوات واصول عد مات ہیں اور ان کی ناقص اور ذیل صفات ان عدمات کی مقتضی ہیں جو قادر مختار جل سلطانہ کے ایجاد سے وجود میں آئی ہیں اور صفات کا ملہ ان میں حضرت وجود تعالیٰ کے کمالات کے ظل سے عاریت کے طور پر ہیں جو انعکاس کے طریق پر ظہور پا کر قادر مختار جل شانہ کی ایجاد سے موجود ہوئی ہیں اور اشیاء کے حسن و قبیح کا مصداق یہ ہے کہ جو چیز آخرت سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے لئے ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وہ حسن ہے اگر چہ بظاہر اچھی دکھائی نہ دے اور جو چیز دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے لئے وسیلہ و ذریعہ ہے وہ قبیح ہے اگر چہ بظاہر حسن وخوب دکھائی دے اور حلاوت وطراوت سے ظاہر ہو ۔ دنیا کی مزخرفات یعنی بیہودہ زیب وزینت کا یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت مصطفوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیہ میں امردوں یعنی بے ریشوں اور بیگانی عورتوں کے حسن اور دنیاوی زیب وزینت کی طرف رغبت و خواہش سے نظر کرنا منع فرمایا گیا ہے کیونکہ یہ حسن وطراوت عدم مقتضیات سے ہے جو ہر فساد کا محل ہے اور اگر حسن و جمال کا منشا کمالات وجود یہ ہوتے تو اس سے منع نہ فرماتے مگر اس سبب سے کہ اصل کے ہوتے کل کی طرف توجہ کرنا برا ہے۔ یہ منع منع استحسانی ہے۔ نہ وجوبی بر خلاف پہلی منع کے پس وہ حسن جو دنیا کے مظاہر جملہ میں ظاہر ہے۔ وہ اس ذات تعالیٰ کے حسن ظلال سے نہیں ہے بلکہ لوازم عدم سے ہے جس نے حسن کی مجاورت کے باعث ظاہر میں حسن پیدا کر لیا ہے اور حقیقت میں قبیح و ناقص ہے جس طرح زہر کو شکر سے غلافی کریں اور نجاست کو زر سے منڈھیں اور یہ جو منکوحہ خوبصورت عورتوں اور لونڈیوں سے متع حاصل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ وہ اولاد کے حاصل کرنے اور نسل کے باقی رکھنے کے لئے ہے جو انتظام عالم کے باقی رکھنے کے لئے مطلوب ہے۔


پس بعض صوفیہ جو مظاہر جمیلہ اور عمدہ عمدہ نغموں میں اس خیال سے گرفتار ہیں کہ یہ حسن و جمال حضرت واجب الوجود تعالیٰ کے کمالات سے مستعار ہے جو ان مظاہر میں ظاہر ہوا ہے اور اس گرفتاری اور تعلق کو نیک اور بہتر سمجھتے ہیں بلکہ راہ وصول تصور کرتے ہیں۔ اس فقیر کے نزدیک ان کے برخلاف صادق و ثابت ہوا ہے چنانچہ اس قسم کا تھوڑا سا مضمون اوپر مذکور ہو چکا ہے بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے بعض اپنے مطلب کے لئے اس قول کو بطور سند پیش کرتے ہیں جو کہا گیا ہے کہ اِيَّاكُمْ وَالْمُرْدَ فَإِنَّ فِيْهِمْ لَوْناً كَلَونِ اللهِ تم بے ریشوں سے بچو کیونکہ ان میں رنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رنگ کی طرح کلمہ گلون اللہ ن کو شبہ میں ڈال دیتا ہے اور نہیں جانتے کہ یہ قول ان کی طلب کے منافی ہے اور اس فقیر کی معرفت کی تائید کرتا ہے کیونکہ کلمہ تحذیر لایا گیا ہے جس سے ان کی طرف توجہ کرنے سے ان کو منع کیا گیا ہے اور اس غلط فہمی کا منشاء بیان فرمایا ہے کہاں کا حسن حق سبحانہ کے حسن و جمال کے مشابہ اور ماخذ ہے نہ کہ بعینہ اس کا حسن تا کہ غلطی میں نہ پڑ جائیں۔

آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ۔ مَا الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ إِلَّا ضَرَّتَانِ اِنْ رَضِيتُ إحدهُمَا سَخِطَتِ الأخرى دنیا اور آخرت دوسوکنیں ہیں یعنی دو عورتیں جو ایک مرد کے نکاح میں ہوں اگر ایک راضی ہوتو دوسری ناراض۔


اس حدیث میں بھی اس امر کی تصریح ہے کہ دنیا و آخرت کا حسن و جمال ایک دوسرے کا اور ضد ہے اور مقرر ہوئے کہ دنیا وی حسن نا پسند ہے اور حسن اخروی پسند ۔ پس شر د نیا وی حسن کے لازم ہوگا اور خیر حسن آخرت کے لازم ۔ پس ناچار اول کا منشاء عدم ہوگا اور دوسرے کا منشاء وجود ہاں بعض چیزیں ایسی ہیں جو ایک وجہ سے دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ایک وجہ سے آخرت کے ساتھ یہ اشیاء پہلی وجہ کے لحاظ سے تنبیح ہیں اور دوسری وجہ کے اعتبار سے حسن اور ان ہر دو وجہ کے درمیان اور ہر ایک کے حسن و فتح کے درمیان تمیز کرنا علم شریعت پر موقوف ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا جو کچھ رسول تمہارے پاس لائے اس کو پکڑ لو اور جس سے منع کرے اس سے ہٹ جاؤ۔

حدیث میں آیا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے حضرت حق سبحانہ نے اس پر نظر نہیں کی اور اس پر حق تعالی کا غضب ہے۔

یہ سب کچھ اس کی قباحت اور شرارت اور فساد کے باعث ہے جو عدم کے مقتضیات ہے۔ جو ہر شر و فساد کا ماویٰ ہے۔ دنیا وی حسن و جمال اور اس کی حلاوت و طراوت رستہ میں پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہیں اور منظور نظر نہیں ہیں۔ وہ آخرت کا جمال ہی ہے جو نظر کے لائق اور حق تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔


اللہ تعالیٰ دنیا داروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ يُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ وہ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آخرت چاہتا ہے۔

اَللَّهُمَّ صَغِر الدُّنْيَا بِأَعْيُنِنَا وَكَبّر الآخِرَةَ فِي قُلُوبنا بحُرُمَت من افتخر بالفقر وَتَجَنَّبَ عَنِ الْغِنَا عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلَوَاتُ اتَمُهَا وَاكْمَلُها یا اللہ تو دنیا کو ہماری آنکھوں میں حقیر کر دے اور آخرت کو ہمارے دلوں میں بزرگ بنا اس رسول کے طفیل جس نے فقر کے ساتھ فخر کیا اور دولتمندی سے الگ رہا اس پر اور اس کی آل پر اتم و العمل صلوۃ و سلام ہو ۔

اور چونکہ شیخ اجل شیخ محی الدین بن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی شرارت اور نقص اور فساد کی حقیقت پر نظر نہیں ڈالی اور ممکنات کے حقائق کو حق جل وعلا کی علمیہ صورتیں مقرر کی ہیں کیونکہ ان کی صورتوں نے حضرت ذات تعالی و تقدس کے آئینہ میں کہ خارج میں اس کے سوا کچھ موجود نہیں جانتا۔ انعکاس پیدا کر کے خارجی نمود و ظہور حاصل کیا ہے اور ان علمیہ صورتوں کو واجب تعالیٰ کی صفات اور شیون کی صورتوں کے غیر نہیں سمجھا ہے۔ اس لئے وحدت وجود کا حکم کیا ہے اور ممکنات کے وجود کو واجب تعالی و تقدس کے وجود کا مین کہا ہے اور شر و نقص کو اضافی اور نسبتی کہہ کر شرارت مطلق اور نقص محض کی نفی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی چیز کوفی نفسہ قبیح نہیں جانتا حتی کہ کفر و ضلالت کو ایمان و ہدایت کی نسبت برا نہیں جانتا نہ اپنی ذات کی نسبت کہ اس کو عین صلاح و خیر سمجھتا ہے اور اپنے ارباب کی نسبت ان کے لئے استقامات کا حکم کرتا ہے اور آیت کریمہ وَمَا مِنْ دَآبَةٍ إِلَّا هُوَ اخِذْ بِنَا صِيْتِهَا إِنَّ رَبّى عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیم ( کوئی زمین پر چلنے والا نہیں جس کو وہ اس کی پیشانی سے پکڑنے والا نہیں ہے۔ بیشک میرا رب صراط مستقیم پر ہے ) کو ان معنی پر شاہد لاتا ہے۔ ہاں جو کوئی وحدت وجود کے سوا حکم نہ پائے وہ اس قسم کی باتوں سے کیوں کنارہ کرے۔

اور جو کچھ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ممکنات کی ماہیتیں بمع ان کے کمالات وجودیہ کے جو ان میں منعکس ہو کر ان سے مل گئی ہیں، عدمات ہیں جیسا کہ مفصل طور پر گزر چکا۔ وَاللهُ سُبْحَانَهُ يُحِقُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ الله تعالیٰ حق ظاہر کرتا اور وہی راہ راست کی ہدایت دیتا ہے۔


اے فرزند ا یہ علوم و معارف جن کی نسبت کسی اہل اللہ نے نہ ہی صراحت سے اور نہ ہی اشارہ سے گفتگو کی ہے۔ بڑے اعلیٰ معارف اور اکمل علوم میں جو ہزار سال کے بعد ظہور میں آئے ہیں اور واجب تعالی و ممکنات کی حقیقت کو جیسا کہ ممکن اور لائق ہے ۔ بیان فرمایا اور جو نہ ہی کتاب وسنت کی مخالفت رکھتے ہیں اور نہ ہی اہل حق کے اقوال کے مخالف ہیں

۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم اس دعا میں جو آپ نے گویا تعلیم کے لئے فرمائی ہے

اَللَّهُمَّ اَرِنَا حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ كَمَا هِى ( یا اللہ تو اشیاء کی حقیقتیں کما حقہ دکھا ) حقائق سے مراد یہی حقائق ہیں جو ان علوم کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں اور جو کہ مقام عبودیت کے مناسب ہیں اور جو جوان که نقص و ذلت و انکسار پر جو بندگی کے حال کے مناسب ہے، دلالت کرتی ہیں۔ بندہ عاجز جواپنے آپ کو اپنے مولائے قادر کا عین جانے ، کمال بے ادبی ہے۔


اے فرزند ا یہ وہ وقت ہے جبکہ پہلی امتوں میں سے ایسی ظلمت سے بھرے ہوئے وقت میں الوالعزم پیغمبر مبعوث ہوتا تھا اور نبی شریعت کو زندہ کرتا تھا اور اس امت میں جو خیر الامم ہے اور اس امت کا پیغمبر خاتم الرسل صلى الله عليه وسلم ہے۔ اس کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل کا مرتبہ دیا ہے اور علماء کے وجود کے ساتھ انبیاء کے وجود سے کفایت کی ہے۔ اسی واسطے ہر صدی کے بعد اس امت کے علماء میں سے ایک مجدد مقرر کرتے ہیں تا کہ شریعت کو زندہ کرے۔ خاص کر ہزار سال کے بعد جو کہ اولوالعزم پیغمبر کے پیدا ہونے کا وقت ہے اور ہر پیغمبر پر اس وقت کفایت نہیں کی ہے۔ اسی طرح اس وقت ایک تام المعرفت عالم و عارف درکار ہے جو گزشتہ امتوں کے اولوالعزم پیغمبر کے قائم مقام ہو ۔


فیض روح القدس ارباز مدد فرماید
دیگران نیز کنند آنچه مسیحا میکرد


ترجمه : فیض روح القدس کا گردے مدد تو اور بھی
کر دکھا ئیں کام وہ جو کچھ جو مسیحا نے کیا


اے فرزند ! وجود صرف عدم صرف کے مقابل ہے اور اوپر گزر چکا کہ وہ صرف واجب الوجود ا تعالی و تقدس کی حقیقت اور ہر خیر و کمال کا عین ہے۔ اگر چہ یہ عینیت بھی خواہ اجمال کے طور پر ہی ہو اس مقام میں گنجائش نہیں رکھتی۔ اور عدم جو صرف اس وجود کے مقابل ہے وہ عدم ہے جس کی طرف کسی نسبت اور اضافت نے راہ نہیں پایا اور وہ ہر شر و نقص کا عین ہے۔ اگر چہ یہ عینیت بھی وہاں گنجائش نہیں رکھتی کیونکہ احنافت کی بو رکھتی ہے۔

اور معلوم ہے کہ کسی شے کا ظہور پورے پورے طور پر اس شے کے حقیقی مقابل میں ظاہر ہوتا ہے۔ وَبِضِدِهَا تَتَبَيَّنُ الاشْيَاءُ اشیاء اپنی ضد سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پس بالضرور وجود صرف کا ظہور پورے طور پر عدم صرف کے آئینہ میں حاصل ہوگا اور مقرر ہے کہ نزول عروج کے اندازہ سے ہے۔ پس جس کا عروج اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وجود صرف تک ثابت ہو۔ ناچار اس کا نزول عدم صرف میں ہو گا جو اس کے مقابل ہے لیکن عروج کے وقت وہاں عارف کا استہلاک ہے جس کو جہل لازم ہے اور نزول کے وقت صحو سے متحقق ہے جو علم و معرفت کا مقام ہے اس وقت اس کے صحو کو اس تجلی ذاتی سے جو ظلیت کی آمیزش سے منزہ اور ذاتی شیون و اعتبارات کے ظلال میں کسی ظل کے پردہ میں تھی اگر چہ عارف اس کو اسماء وشیون کے ملاحظہ کے بغیر جانتا ہے اور حضرت وجود ! صرف کی تجلی گنتا ہے مسبحان اللہ ! اس عدم نے جو ہر شر نقص کا ماویٰ ہے ۔ حضرت وجود تعالی کے ظہور تام کے باعث حسن کے معنی پیدا کئے اور وہ کچھ پایا جو کسی نے نہ پایا اور جو فی نفہ قبیح تھا حس عارضی کے سبب مستحسن ہو گیا۔ نفس امارہ انسانی جو بالذات شرارت کی طرف مائل ہے۔ اس عدم کے ساتھ سب سے زیادہ کامل مناسبت رکھتا ہے۔ اسی واسطے تجلی خاص میں سب سے فائق ہو گیا اور سب پر ترقی پا گیا۔


که مستحق کرامت گنهگار انند


جاننا چاہئے کہ تام المعرفت عارف جب عروج کے مقالات اور نزول کے مراتب کو مفصل طور پر طے کرنے کے بعد عدم صرف میں نزول فرمائے گا اور حضرت وجود کی آئینہ داری کرے گا تو اس وقت تمام اسمائی وصفاتی کمالات اس میں ظہور پائیں گے اور مفصل طور پر سب کو ایسے لطائف کے ساتھ ظاہر کرے گا کہ مقام اجمال جن کا متضمن ہے اور یہ دولت اس کے سوا کسی دوسرے کو میسر نہیں ہے اور یہ آئینہ داری ایک قیمتی لباس ہے جو اس کے قد پر سیا ہوا ہے۔ اس تفصیل نے اگر چہ حضرت علم کے خزینہ میں صورت حاصل کی ہے لیکن وہ آئینہ داری مرتبہ علم میں ہے جس نے خارج میں تمام کمالات کو ظاہر کیا ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا

سوال: مرآتیست عدم کے کیا معنی ہیں اور عدم کو جو لاشے محض ہے کس اعتبار سے وجود کا آئینہ کہا ہے؟


جواب
: عدم باعتبار خارج کے لاشے محض ہے لیکن اس نے علم میں امتیاز پیدا کی ہے بلکہ وجود ذہنی کے ثابت کرنے والوں کے نزدیک اس نے وجود علمی بھی حاصل کیا ہے اور اس کو وجود کا آئینہ اس اعتبار سے کہا ہے کہ مرتبہ عدم میں ہر نقص وشرارت جو وجود سے جو اس کے نقیض ہے، ثابت ہو ۔ ضرور منسلوب نہوگا اور ہر کمال جو مرتبہ عدم میں مسلوب ہو۔ وہ حضرت جود میں مثبت ہو گا۔ پس ناچار عدم کمالات وجودی کے ظہور کا سبب ہوا اور آئینہ ہونے کے یہی معنی ہیں اس کے سوا اور معنی کچھ نہیں ۔ فَافُهُمْ فَإِنَّهُ دَقِيقَ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ – الْمُلْهِمُ (پس سمجھ لے کیونکہ یہ باریک مطلب ہے اور اللہ تعالیٰ الہام کرنے والا ہے ۔ ) اے فرزند! یہ جو معارف لکھے گئے ہیں۔ امید ہے کہ رحمانی الہامات سے ہوں گے جن میں ہرگز شیطانی وسوسوں کی آمیزش نہیں ہے اور اس مطلب پر دلیل یہ ہے کہ جب فقیر ان علوم کے لکھنے کے درپے ہوا اور اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں التجا کی تو دیکھا کہ گویا ملائکہ کرام علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام اس مقام کے گردونواح سے شیطان کو دفع کرتے ہیں اور اس مکان کے گرد نہیں آنے دیتے ۔ وَاللهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں کا ظاہر کرنا بڑی اعلی درجہ کی شکر گزاری ہے اس لئے اس نعمت عظمیٰ کے ظاہر کرنے کی دلیری کی امید ہے کہ یہ بات عجب اور خود بینی کے گمان سے پاک ہوگی اور خود بینی کی گنجائش کیسے ہو سکے جبکہ اللہ تعالی کی عنایت سے اپنا ذاتی نقص و شرارت ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے ہے اور کمالات سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب ہیں ۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ أَوَّلاً وَاخِراً وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ دَائِماً وَسَرْمَداً وَعَلَى الِهِ الْكِرَامِ وَاَصْحَابِهِ الْعِظَامِ وَالسَّلامُ عَلَى سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيمَاتُ اَتَمُهَا وَاَكْمَلُهَا اوّل آخر میں اللہ رب العلمین کی حمد ہے اور اس کے رسول اور اس کی آل بزرگوار اور اصحاب عظام پر ہمیشہ صلوٰۃ وسلام ہو اور سلام جو ان سب پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا۔