مکتوب 247
اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کے وجود پاک پر اس کا اپنا وجود پاک ہی دلیل ہے نہ کہ اس کا ماسوائے اور اس کے بیان میں عرفان پناہ مرزا حسام الدین احمد کی طرف لکھا ہے ۔
عَرَفْتُ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ لاَ بَلْ عَرَفْتُ فَسُخَ الْعَزَائِمِ بِرَبِّی: میں نے اپنے رب کو ارادوں کے توڑنے سے نہیں پہچانا بلکہ ارادوں کے توڑنے کو اپنے رب کے ساتھ پہچان لیا ہے کیونکہ وہ حق تعالیٰ اپنے ماسوائے پر دلیل ہے نہ کہ برعکس اس لئے کہ دلیل اپنے مدلول سے اظہر ہوتی ہے اور حق تعالی سے بڑھ کر اور کونسی چیز اظہر ہے کیونکہ تمام اشیاء اسی سے ظاہر ہوئی ہیں ۔ پس وہ اپنی ذات اور اپنے ماسوائے پر دلیل ہے اسی واسطے میں کہتا ہوں کہ عَرَفتُ رَبِي بِرَبِّي وَ عَرَفتُ الاشْيَاءَ بِهِ تَعَالیٰ: میں نے اللہ تعالیٰ کو اللہ ہی کے ساتھ پہچانا اور اشیاء کو اس کے ساتھ پہچانا پس برہان اس جگہ لمئی ہے اور اکثر کے خیال میں انی ہے اور تفاوت نظر کے تفاوت سے ہے اور اختلاف بلحاظ منظر کے اختلاف ہے بلکہ وہاں استدلال اور برہان کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ حق سبحانہ کے وجود میں کوئی پوشیدگی اور اس کے ظہور میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اور وہ تمام بدیہیات سے زیادہ روشن ہے اور یہ بات سوائے اس شخص کے کہ جس کے دل میں مرض اور اس کی آنکھوں پر پردہ ہو کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اور تمام اشیاء حواس ظاہری سے محسوس میں اور ضروری طور پر معلوم ہے کہ ان سب کا وجود اسی ذات پاک کی طرف سے ہے اور بعض لوگوں کو اس علم کا حاصل نہ ہونا کسی مرض کے عارض ہونے کے سبب سے ہے جو مطلوب میں مضر نہیں ہے ۔ وَالسَّلاَمَ عَلَيْكُمْ وَعَلَىٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلامُ اَتَمُهَا وَأَكْمَلُها: اور سلام آپ پر اور ان سب پر جو ہدایت پر چلے اور حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا ۔