مکتوب 72
اس بیان میں کہ بیت اللہ کا معاملہ تمام تجلیات اور ظہورات اور ظہور عرشی سے برتر ہے اور کعبہ کی حقیقت کے ساتھ ملنے اور صورت کعبہ کی طرف شوق زیارت کے بیان میں مخدوم زادہ خواجہ محمد معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔ ظہور عرشی اگر چہ تمام تجلیات و ظہورات سے برتر ہے لیکن وہ معاملہ جو بیت اللہ مقدس کے ساتھ وابستہ ہے۔ تمام ظہورات و تجلیات سے برتر ہے۔ وہاں ظہور و تجلی کا نام لینا نگ و عار ہے۔
تجلیات و ظهورات محیط دائرہ کا حکم رکھتے ہیں اور یہ معاملہ اس دائرہ کے مرکز کا حکم اور شک نہیں کہ محیط دائرہ باوجود وسعت کے مرکز دائرہ کامل ہے، کیونکہ اس نقطہ مرکز نے اپنے کل کو فراخ کیا ہے اور سو نقطوں کی طرح ہو کر محیط دائرہ بن گیا ہے۔ مذکورہ بالا معاملہ کو نقطہ سے تعبیر کرنا اقرب اشیاء کے ساتھ تعبیر کرنے کی قسم سے ہے ورنہ وہاں نقطہ بھی دائرہ کی طرح مفقود ہے۔
نہ وہاں ظاہر کی مجال ب نہ مظہر کی نہ اس مقام میں اصل کی گنجائش ہے نہ ظل کی کیونکہ اصل بھی سامیہ کی طرح اس دولت سرائے سے پیچھے رہ گیا ہے۔
چه گویم با تو از مرغے نشانه
که با عنقا بود هم آشیانه
زعنقا هست نامه پیش مردم
زمرغ من بود آن نام ہم گم
ترجمہ : کہوں کیا مرغ کا تجھ سے نشانہ
جو عنقا سے رہے ہم آشیانہ
مگر ہے نام عنقاسب کو معلوم
مرے اس مرغ کا ہے نام معدوم
انبیا ء نبی اسرائیل کا کعبہ جو بیت المقدس کا پتھر ہے۔ اس کے ظہورات کے کمالات آخر کار اس کعبہ معظمہ کے کمالات کی طرف راجع ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ مل جاتے ہیں، کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ ملنے سے چارہ نہیں۔ راستے جب تک مرکز تک جو صراط مستقیم ہے نہ
پہنچیں تب تک مطلب کی طرف نہیں جاسکتے ۔ وَاشَوُقَاهُ إِلَى لِقَاءِ الْكَعْبَةِ الْمُعَظَّمَةِ.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلناسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبَارَكًا وَّ هُدًى للْعَالَمِينَ فيهِ آيَاتٌ بَيْنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهُ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِيْنَ سب سے اول گھر جولوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ معظمہ میں ہے۔ جو اہل جہان کے لیے سراسر برکت و ہدایت ہے۔ اس میں روشن نشان ہیں ۔ جن میں سے ایک مقام ابراہیم ہے۔ جو اس گھر میں آ گیا وہ امن میں ہو گیا اور لوگوں پر فرض ہے کہ راستہ کے اخراجات ہونے کے وقت اللہ کے لیے اس گھر کا حج کیا کریں اور جو شخص اس سے انکار کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہل جہان سے غنی ہے۔
اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کعبہ کی حقیقت کے ساتھ الحاق یعنی ملنا میسر ہو چکا ہے اور اس کے بعد بیشمار ترقیاں حاصل ہو چکی ہیں۔ مگر صورت کو صورت کعبہ کی ملاقات کا شوق ہے۔ حج فرض اکبر ہو چکا ہے اور راستہ کا امن بھی غلبہ سلامتی کے باعث ثابت ہو چکا ہے اور اس فرض کے ادا کرنے کا شوق بھی کامل ہے، لیکن دیر پر دیر ہوتی چلی آتی ہے۔ سفر کا استخارہ بھی موافقت نہیں کرتا ۔ اچھی طرح غور سے توجہ کی ہے۔ پھر بھی چلنے کا راستہ نہیں کھلتا اور کعبہ تک پہنچنا نظر نہیں آتا۔ کیا کیا جائے۔ ادائے فرض کی تاخیر میں اس قسم کے عذر فائدہ مند نہیں ہیں ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کی توفیق سے فرض حج کے ادا کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلنا چاہئے اور سر اور آنکھوں کے بل منزلوں کو قطع کرنا چاہئے۔ اگر پہنچ گئے تو نعمت عظمی ہے۔ اگر راہ ہی میں رہ گئے تو بڑی بھاری امید داری ہے۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( یا اللہ تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ ) وَصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَ صَحْبِهِ وَبَارَكَ وَسَلَّمَ