5

مکتوب 73: انسان کامل کے ظاہر و باطن کے بیان میں


مکتوب 73

انسان کامل کے ظاہر و باطن کے بیان میں مخدوم زادہ مجد الدین محمد معصوم کی صادر فرمایا ہے:۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالی کے لیے حد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ) ۔

انسان عالم خلق اور عالم امر کے مجموعہ سے مراد ہے ۔ عالم خلق کو انسان کی صورت اور ظاہر تصور کرتے ہیں اور عالم امر کو اس کا باطن اور حقیقت جانتے ہیں اور اعیان ثابتہ کو جوممکنات کے حقائق کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہے کہ ممکنات ان اعیان کے ظلال ہیں اور وہ اعیان ان ظلال کے اصول ہیں۔ کیونکہ ممکنات کی حقیقت و ماہیت اعیان کے وہی ظلال ہیں کہ ممکنات جن کے ساتھ ممکنات بنے نہیں اور وجود ظلی پیدا کیا ہے۔

برخلاف اعیان کے کہ وہاں تعیینات و جوبی ثابت کرتے ہیں اور ان کو مراتب امکان کے اوپر جاتے ہیں ، کیونکہ تعین ، حدت اور تعین ، احدیت کو کہ اعیان ثابتہ کا مرتبہ ہے۔ عین وجونی ہتے ہیں اور باقی تین تعینیوں یعنی تعین روحی اور تعیین مثالی اور تعیین جسدی کو تعین امکانی جانتے ہیں ۔ پس تعیین و جونی کو جو تین ، کانی کی حقیقت کہتے ہیں، تجوز کے طور پر ہے۔ کیونکہ حقیقت امکانی عالم امکان سے ہے۔ نہ کہ مرتبہ وجوب سے شے کا اصل گو یا شے کی حقیقت ہے۔

پس یہ جو کہتے ہیں کہ صوفی کائن بائن ہوتا ہے۔ یعنی ظاہر میں خلق کے ساتھ اور باطن میں خالق کے ساتھ تو ظاہر سے مراد عالم خلق ہے اور باطن سے مراد عالم امر اور اس مقام کو جو دونوں تو جہوں کا جامع ہے۔ بڑا عالی کہتے ہیں اور تکمیل وارشاد کے مقام اور دعوت کا مرتبہ خیال کرتے ہیں ۔ اس فقیر کو اس مرتبہ میں معرفت خاص حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص اخص خواص میں ے ہو۔ جس کے نزدیک عالم خلیق اور عالم امر دونوں صورت و ظاہر کی طرح ہوں اور اس کی حقیقت و باطن وہ اسم ہے جو اس کا مبد تعین ہے۔

بمعہ دوسرے اسماء وشیونات کے جو اس اسم کے اصل کی طرح ہیں حتی کہ اس حضرت ذات تک پہنچ جائیں جو شیون و اعتبارات سے مجرد ہے۔ یہ کامل معرفت والا عارف چونکہ تمام مراتب امکانیہ کو طے کر کے اس اسم تک پہنچ جاتا ہے جو اس کا قیوم ہے اور مراتب امکانیہ سے اس کی انانیت دور ہو کر اس اسم کے ساتھ منطبق ہو چکی ہے اور ترتیب وار عروج کے طور پر د میدم مراتب فوق پر جو اس اسم کے اصل کی طرح ہیں اور وہاں سے احدیت مجردہ تک پہنچ چکتی ہے۔ پس اس کی انانیت کے منطبق ہونے کے یہ مراتب اس کی حقیقت ہے کہ اس کا عالم امر اس کے عالم خلق کی طرح اس حقیقت کی صورت بن گئی ہے۔ یہ صورت اس حقیقت کے لیے ایسی ہے جیسے کپڑا پہنے والے شخص کے لیے کپڑا۔ دوسروں نے چونکہ انا کا اطلاق عالم خلق اور عالم امر پر موقوف رکھا ہے۔ اس لیے ان کی صورت و حقیقت بھی عالم خلق اور عالم امر ہے اور وہ اسماء جوان کے تعینات کے مبادی ہیں ۔ ان کے قیوم ہیں ۔


سوال : عارف خواہ کتنا ہی کمال معرفت حاصل کرے۔ پھر بھی ممکنات ہی سے ہے امکان سے نکل کر وجوب کے ساتھ متصف نہیں ہوتا۔ پس وہ اسم جو اس کا قیوم ہے اور مرتبہ وجوب سے ہے۔ کس طرح اس کی حقیقت اور جز ہوسکتا ہے۔

جواب : یہ حقیقت باعتبار شہود کے ہے۔ نہ باعتبار وجود کے تا کہ منظور لازم آئے جس طرح کہ بقا باللہ کہتے ہیں ۔ یہ شہود صرف تخیل ہی نہیں بلکہ بہت سے ثمرات و نتائج اس سے حاصل ہوتے ہیں ۔

فریاد حافظ ایں ہمہ آخر بہر زہ نیست
ہم قصه غریب و حدیث عجیب است

ترجمہ: نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد
عجب ہے ماجرا اس کا سراسر

پس ثابت ہوا کہ جو کچھ دوسروں کی صورت و حقیقت کا مجموعہ ہے۔ وہ اس عارف کی صورت ہے ۔ اس صورت کو اس کی حقیقت کے ساتھ وہ نسبت ہوتی ہے جو کپڑے کو پہنے والے شخص کے ساتھ ہوتی ہے۔ پھر دوسرے اس کی حقیقت کو کیا پاسکیں اور اپنی صورتوں اور حقیقوں کی مانند سمجھنے کے سوا اور کیا تصور کریں۔ اس عارف کی معرفت حق عالی کی معرفت کو مستلزم ہے۔ إِذَا رَؤُ وَاذُ کر الله ( جب لوگ ان کو دیکھتے ہیں خدا یاد آتا ہے ) ان کا نشان ہے۔

الہی یہ کیا ہے جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا کیا ہے کہ جس نے ان کو پہچانا اس نے تجھ کو پالیا اور جب تک تجھے نہ پایا ان کو نہ پہچانا۔

اور یہ جو فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ تام المعرفت عارف رجوع کے بعد کلی طور پر عالم کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ظاہر خلق کی طرف ہے اور اس کا باطن خالق کی طرف بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ عالم خلق اور عالم امر دونوں سے کلی طور پر عالم کی طرف متوجہ ہے جیسے کہ قوم کے نزدیک متعارف اور مشہور ہے یعنی عالم خلق و عالم امر دونوں کی طرف دعوت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ اور دو حقیقت و باطن جو فقیر نے اوپر لکھا ہے اس سے اسم قیوم اور مافوق مراد لیا ہے اس کا

حق کی طرف توجہ کرنا کچھ معنے نہیں رکھتا، کیونکہ وہ عالم وجوب ہے ہے جیسے کہ گزر چکا بہر صورت رجوع کے وقت عارف کامل کی توجہ کامل طور پر خلق کی طرف ہوتی ہے اور وہ شخص کہ جس کی ایک توجہ خلق کی طرف ہے اور دوسری توجہ خالق کی طرف وہ سیر کے وسط میں ہے، لیکن یہ شخص اس سالک سے بلند تر ہے جس کی توجہ کامل طور پر حق تعالیٰ کی طرف ہے کیونکہ شخص بندوں کے حقوق ادا کرنے میں ناقص ہے اور وہ شخص حتی المقدور خالق کے حق بھی اور مخلوق کے حق بھی بجالاتا ہے اور خلق کو خالق کی طرف بلاتا ہے، پس اس کی نسبت اکمل ہوگی ۔

جاننا چاہئے کہ حق تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا بعد اور دوری طلب کرتا ہے اور بعد و دوری اس عارف کے حق میں دوسروں کے نصیب ہو چکی ہے جو توجہ کے محتاج ہیں۔ کیا کسی نے دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف متوجہ ہو تو پھر اس شخص کی طرف جو اپنے آپ سے بھی زیادہ نزدیک ہے اس کی توجہ کرنے کے کیا معنے ۔

یہ عدم توجہ اس عارف کے مخصوصہ کمالات میں سے ہے۔ عجب نہیں کہ دور بین لوگ اس کو نقص خیال کریں اور توجہ کو عدم توجہ کی نسبت زیادہ کمال تصور کریں ۔ حق تعالیٰ ان کو انصاف دے تا کہ اپنے جہل مرکب پر حکم نہ کریں اور ہنر کو عیب نہ جائیں۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا