0

مکتوب 76: عرش کی حقیقت کے بیان میں جو عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے


مکتوب 76

عرش کی حقیقت کے بیان میں جو عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور دونوں کا رنگ رکھتا ہے اور زمین و آسمان کی قسم سے نہیں ہے اور کرسی اور اس کی وسعت کے بیان میں مولا نا فرخ حسین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطفی اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔

عرش مجید حق تعالی کی عجیب و غریب مصنوعات میں سے ہے اور عالم کبیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور دونوں کا رنگ رکھتا ہے اور وہ عالم خلق جو چھ روز میں پیدا ہوا ہے یعنی زمین و آسمان و پہاڑ وغیرہ جو آیت کریمہ خلقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ لا میں واقع ہے۔


عرش کا وجود ان کی پیدائش سے مقدم ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَ كَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ( وہ حق تعالیٰ جس نے آسمانوں اور زمین کو دودن میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا بلکہ اس آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس عالم خلق سے پانی بھی پہلے پیدا ہوا ہے۔ پس عرش مجید جس طرح زمین کی قسم سے نہیں ہے۔ آسمان کی قسم سے بھی نہیں ہے کیونکہ عرش عالم امر کا بہت حصہ رکھتا ہے اور یہ نہیں رکھتے چونکہ عرش کو زمین کی نسبت آسمانوں کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے اس لیے آسمانوں میں گنا جاتا ہے۔ ورنہ در حقیقت نہ وہ زمین کی قسم سے ہے نہ آسمان کی قسم سے۔

زمین و آسمان کے احکام و آثار جدا ہیں اور عرش کے جدا۔ باقی رہا معاملہ کرسی کا ۔ آیت کریمہ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ سے مفہوم ہوتا ہے کہ کرسی بھی آسمانوں سے جدا ہے اور ان سب سے زیادہ وسیع ہے اور شک نہیں کہ کری عالم امر سے نہیں کیونکہ اس کو عرش کے نیچے بتاتے ہیں۔ عالم امر کا معاملہ عرش کے اوپر ہے اور جب عالم خلق سے ہو کر اس کی پیدائش آسمانوں سے جدا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش ان چھ دنوں کے سوا ہوگی اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ عالم خلق سےکا سب انہی چھ دنوں میں پیدا نہیں ہوا ۔ کیونکہ پانی جو عالم خلق سے ہے ان چھ دنوں کے سوا پیدا ہوا ہے اور ان سے اول پیدا ہوا ہے جیسے کہ گزر چکا۔ چونکہ کرسی کا معاملہ اچھی طرح ہم پر کشف نہیں ہوا۔ اس لیے اس کی تحقیق کو دوسرے وقت پر موقوف رکھا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے بہت کچھ امید ہے۔ رَبِّ زِدْنِی علما (یا اللہ تو میر اعلم زیاد ہ کر ) ۔

اس تحقیق سے دوقوی اعتراض دفع ہو گئے ۔ ایک یہ کہ جب زمین و آسمان نہ تھے تو چھ دنوں کی تعیین و تشخیص کہاں سے ہوئی اور یک شنبہ کا دن دوشنبہ سے کس طرح الگ ہوا اور سہ شنبہ چار شنبہ سے اور پنج شنبہ سے جمعہ کیونکہ ممتاز ہوا۔ جب زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے عرش کی پیدائش معلوم ہوگئی تو زمانہ کا حصول متصور ہو گیا اور دونوں کا ثبوت واضح ہو گیا اور اعتراض دور ہو گیا ۔ یہ ضروری نہیں کہ دنوں کا امتیاز آفتاب کے طلوع غروب پر ہی مخصوص ہو، کیونکہ بہشت میں یہ طلوع و غروب نہیں لیکن دنوں کا امتیاز ثابت ہے۔ جیسے کہ اخبار میں وارد ہے۔


اور دوسرا اعتراض جو دفع ہوا۔ اور اس فقیر کے علم پر مخصوص ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ لا يسعُنِي أَرْضَى وَلَا سَمَائِي وَلَكِن يَسْعُنِي قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ (میں نہ اپنی زمین میں سما سکتا ہوں نہ آسمان میں، لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کامل ظہور مومن آدمی کے قلب کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے سوا کسی اور کو یه دولت حاصل نہیں لیکن مکتوبات میں اس کے برخلاف لکھا ہے کہ ظہور اتم عرش مجید کے لیے ہے اور ظہور قلبی ظہور عرشی کا ایک لمعہ ہے۔


اور پہلی تحقیق سے معلوم ہوا کہ عرش کے آثار و احکام زمین و آسمان کے آثار و احکام سے جدا ہیں یعنی زمین و آسمانوں میں حق تعالیٰ کی گنجائش نہیں اور عرش میں ہے۔ ہاں زمین و آسمان اس وسعت کی قابلیت نہیں رکھتے ۔ یہ وسعت مؤمن آدمی کے دل کو حاصل ہے جو اس دولت کے لیے مستعد ہے پس وسعت قلبی کا حصہ زمین و آسمانوں کے اعتبار سے ہے نہ ان تمام مصنوعات کے اعتبار سے جو عرش کو بھی شامل ہیں ، کہ حدیث قدسی کے مفہوم کے برخلاف متصور ہو۔ پس یہ دوسرا اعتراض بھی رفع ہو گیا۔ جاننا چاہئے کہ جب زمین و آسمان و مافیہا کو عرش مجید کے مقابلہ میں ظہور تام کا عمل ہے۔ ڈالتا ہوں تو بے توقف نیست و نابود ہو جاتے ہیں اور ان کا کوئی اثر نہیں رہتا۔ ہاں قلب انسانی جو عرش کے رنگ سے رنگا ہوا ہے باقی رہتا ہے اور محض لاشے نہیں ہو جاتا اسی طرح وہ ظہور جو فوق کی جانب میں ماورا ، عرش اینی نی علی تالات رکھتا ہے۔ عرش کو اس ظہور اور اس مرتبہ سے وہی نسبت ہے جو زمین و آسمان کو عرش کے ساتھ تھی ۔ فوق کو اپنے ماتحت کے ساتھ اسی طرح کی نسبت ہے۔ حتی کہ عالم امر ختم ہو جائے اس دائرہ کے تمام ہونے کے بعد معاملہ حیرت و جہل میں پڑتا ہے اگر معرفت ہے تو مجبول الکیفیت ہے جو حادث کے عقل و فہم سے برتر ہے ۔ اب ہم انسان اور قلب انسان کے کچھ کمالات بیان کرتے ہیں ۔


عیب نے جملہ بلفتی هنرش نیز بگو
ترجمہ
: عید مے سب ہو چکے کچھ تو ہنر اس کے کہو

عرش مجید اگر چہ زیادہ وسیع اور مظہر اتم ہے لیکن اپنی اس دولت کے حاصل ہونے کا علم نہیں رکھتا اور ان کمالات کا شعور اس کو حاصل نہیں۔ برخلاف قلب انسانی کے کہ صاحب شعور ہے اور اپنے علم و معرفت سے معمور ہے۔ قلب کے لیے ایک اور بھی زیادتی ہے جس کو ہم بیان کرتے ہیں۔ غور سے نہیں مجموعہ انسان جس کو عالم صغیر کہتے ہیں اگر چہ عالم خلق اور عالم امر سے مرکب ہے لیکن اس کو بیت وحدانی حقیقی حاصل ہے جس پر آثار و احکام مترتب ہیں اور عالم کبیر کو یہ بیئت وحدانی حاصل نہیں اور اگر ہے بھی تو اعتباری ہے۔ پس وہ فیوض جو اس ہیئت و حمدانی کی راہ سے انسان اور قلب انسان کو پہنچتے ہیں عالم کبیر اور عرش مجید جو اس عالم کبیر کے قلب کی طرح ہے ۔ اس فیوض و برکات سے بے نصیب ہے۔ دوسری وجہ زیادتی قلب کی یہ ہے کہ جزو خا کی جو فی الحقیقت خلاصہ مخلوقات ہے اور باوجود دوری کے اقرب ظہورات ہے۔ اس جزو خا کی کے کمالات نے مجموعه عالم صغیر میں سرایت کی ہے اور عالم کبیر میں چونکہ در حقیقت یہ مجموعہ نہیں اس لیے یہ سرایت مفقود ہے۔ پس قلب انسانی عرش مجید کے برخلاف یہ کمالات بھی رکھتا ہے۔

جاننا چاہئے کہ یہ فضائل و کمالات جو قلب میں ثابت کیے جاتے ہیں جب اچھی طرح ملاحظہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فضل جزئی میں داخل ہیں اور فضل کلی ظہور عرش کے لیے معلوم ہوتا ہے۔ عرش اور قلب کی مثال اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ گویا ایک وسیع آگ ہے جس نے دشت و صحرا کو منور کر دیا ہے اور اس آگ سے ایک مشعل بنالیں جس میں بعض امور کے لاحق ہونے سے اس قسم کی اور نورانیت پیدا ہو جائے جو اس آگ میں نہیں تو کچھ شک نہیں کہ یہ زیادتی صرف فعل جزئی ہی ثابت کرتی ہے۔ وَاللهُ سُبْحَانَهُ اَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الْأُمُورِ كُلَهَا تمام امور کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔


رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلَّ شَيْءٍ قَدِير” یا اللہ تو ہمارے نور کو کامل کبر اور ہم کو بخش تو سب کچھ کر سکتا ہے۔

وصلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَى سَيّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ وَ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ وَالْمَلَئِكَةِ الْمُقَرَّبَينَ وَ بَارَكَ وَسَلَّمَ.

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا