0

مکتوب 91: ایک استفسار کے جواب میں جس میں قاب قوسین او ادنی کے اسرار دریافت کیسے گئے تھے


مکتوب 91

ایک استفسار کے جواب میں جس میں قاب قوسین او ادنی کے اسرار دریافت کیسے گئے تھے ۔ مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کی طرف صادر فرمایا:۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ على عباده الذين اصطفی اللہ قوالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔


مقام قاب قوسین او ادنی میں سرعظیم یہ ہے۔ کہ جب انسان کامل سیرالی اللہ کے تمام ہونے کے بعد سیر فی اللہ کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے۔ تو اخلاق الہی سے متخلق ہو جاتا ہے اور جب مجمل طور پر اس سیر کو بھی تمام کر لیتا ہے اور اسماء وصفات کے عکسوں کے ظہور کا دائرہ جو سیر فی اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ تمام کر لیتا ہے۔ تو اس امر کے لائق ہو جاتا ہے کہ محبوب ظلیت کی آمیزش اور حالیت و محلیت کے وہم کے بغیر اصالت کے طور پر اس میں ظہور فرمائے ۔ چونکہ محبوب کی صفات ذاتیہ اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں اس لیے عاشق کی نظروں میں ذات کے ظہور کے ساتھ صفات کا ظہور بھی ہوگا اور دو قوسین یعنی قوس ذات اور قوس صفات حاصل ہو جائیں گی ۔

یہ مقام اعلیٰ قاب قوسین ہے۔ جو ظہور اصلی کے متعلق ہے جس میں ظلیت کی آمیزش نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت سے عاشق صادق کا تعلق و گرفتاری معشوق ذات کے ساتھ یہاں تک ہو جائے کہ اسم وصفت سے گزر جائے تو اس وقت اسم وصفت بالکل اس کی نظر سے دور ہو جاتے ہیں اور ذات کے سوا اس کو کچھ ملحوظ و مشہود نہیں ہوتا۔ اگر چہ صفات موجود ہوں، لیکن اس کو مشہور نہیں ہوتے ۔ تب او ادنی کا ستر ظاہر ہوتا ہے اور قوسین کا کچھ اثر نہیں رہتا۔ اس مقام اعلیٰ سے جب ہبوط واقع ہو تو قدم اول عالم خلق میں بلکہ عصر خاک میں آ پڑتا ہے جو باوجود دوری اور مہجوری کے تمام موجودات کی نسبت عالم قدس سے زیادہ قریب ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ اگر عروج وصعود کا اعتبار کریں تو عالم امر کو بلکہ عالم امر کے اخفی کو تمام موجودات کی نسبت عالم قدس سے زیادہ قریب معلوم کرتے ہیں اور جب نزول و ہبوط کی طرف نظر کرتے ہیں تو قرب کی دولت عالم خلق بلکہ عصر خاک کے نصیب جانتے ہیں ۔ ہاں جب عروج کی جانب میں دائرہ کے نقطہ اول کو ملاحظہ کریں تو جانب عروج میں اس نقطہ سے زیادہ قریب اس دائرہ کا دوسرا نقطہ ہے اور جب ہبوط کی جانب میں ملاحظہ کیا جاتا ہے تو اس نقطہ اول سے زیادہ قریب دائرہ کا اخیر نقطہ معلوم ہوتا ہے۔

اس قدر فرق ہے کہ نقطہ ثانی عروج میں نقطہ اول سے معرض یعنی روگرداں ہے اور یہ نقطہ اخیر نقطہ اول کی طرف متقبل یعنی متوجہ ہے اور معرض اور مقبل میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ نقطہ ثانیہ نقطہ ادنیٰ کے ظہورات کی خواہش رکھتا ہے اور نقطہ اخیر ظہورات کی طرف پشت کر کے ظاہر کی ذات کا خواہاں ہے۔ پھر دونوں کس طرح آپس میں برابر ہو سکتے ہیں۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهِيَءُ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدُ (اے رب تو ہم پر اپنے پاس سے رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے ہماری بھلائی نصیب کر )

وَالسَّلَامُ عَلَى مِنَ اتَّبَعَ الهدی ( سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی ) ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا