مکتوب 92
اس بیان میں کہ ولایت قرب الہی سے مراد ہے اور خوارق و کرامات ولایت کی شرط نہیں اور اس بیان میں کہ بادشاہوں کے لیے سجدہ تحیت کا کیا حکم ہے۔ میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔
برادرم عزیز سیادت پناہ میر محمدنعمان خوشحال رہیں ۔ آپ کو واضح ہو کہ خوارق و کرامات کا ظاہر ہونا ولایت کی شرط نہیں ۔ جس طرح علما، خوارق کے حاصل کرنے کے مکلف نہیں ہیں اسی طرح اولیاء خوارق کے ظہور پر مکلف نہیں ہیں کیونکہ ولایت قرب الہی سے مراد ہے جو ماسوائے کے نسیان کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ بعض کو یہ قرب عطا فرماتے ہیں لیکن غائبانہ حالات پر اطلاع نہیں بخشتے اور بعض کو یہ قرب بھی دیتے ہیں اور غائبانہ اشیاء کی اطلاع بھی بخشتے ہیں اور بعض کو قرب کچھ نہیں دیتے لیکن غائبانہ حالات پر اطلاع دے دیتے ہیں ۔ یہ تیسری قسم کے لوگ اہل استدراج ہیں۔ نفس کی صفائی نے ان کو غائبانہ کشف میں مبتلا کر کے گمراہی میں والا ہے ۔ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ إِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمْ الشَّيْطَانُ فَانسَهُمْ ذِكْرَ اللهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ إِلَّا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( گمان کرتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں۔ خبردار یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔
ان پر شیطان نے غلبہ پا کر ان کو اللہ تعالی کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں ۔ خبر دار یہ شیطان کا گروہ گھاٹا اٹھانے والا ہے ( ان لوگوں کا نشان حال ہے۔ پہلی اور دوسری قسم کے لوگ جو دولت قرب سے مشرف ہیں۔ اولیاء اللہ ہیں۔ نہ غائبانہ امور کا کشف ان کی ولایت کو بڑھاتا ہے نہ عدم کشف ان کی ولایت کو گھٹاتا ہے۔ ان کے درمیان درجات قرب کے اعتبار سے فرق ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدم کشف والا باعث زیادہ قرب کے جو اس کو حاصل ہوتا ہے کشف والے شخص سے افضل و پیش قدم ہوتا ہے۔
صاحب عوارف جو شیخ الشیوخ ہے اور تمام گروہوں میں مقبول ہے۔ اپنی کتاب عوارف میں اس امر کی تصریح کرتا ہے۔ اگر کسی کو میری بات کا یقین نہ ہو تو اس کتاب میں دیکھ لے۔ وہاں کرامات و خوارق کے ذکر کے بعد لکھا ہے کہ کرامات و خوارق اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض کو کشف و کرامات کیساتھ مشرف فرماتے ہیں اور یہ دولت عطا فرماتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک شخص زیادہ اعلیٰ رتبہ رکھتا ہے، لیکن خوارق و کرامات اس کو کچھ حاصل نہیں ہوتے ۔ کیونکہ کرامات یقین کی زیادہ تقویت کے لیے عطا فرماتے ہیں اور جب کسی کو خالص یقین حاصل ہو چکا ہو تو اس کو کرامات کی کیا حاجت ہے۔ یہ سب کرامت ذکر ذات اور اس میں قلب کے فانی ہونے کے ماسوا ہیں ۔ جو اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ انتینی کلام ، شیخ اور اس گروہ کے امام خواجہ عبداللہ انصاری نے جو شیخ الاسلام کے لقب سے ملقب ہے۔ اپنی کتاب منازل السائرین میں فرمایا ہے کہ فراست کی دوقسمیں ہیں ۔
ایک اہل معرفت کی فراست، دوسری اہل جوع و ریاضت کی فرانست ۔ اہل معرفت کی فراست طالبوں کی اسعتداد اور ان اولیاء اللہ کو پہچانے سے تعلق رکھتی ہے۔ جو حضرت جمع کے ساتھ واصل ہو چکے ہیں اور اہل ریاست داہل جوع کی فراست غائبانہ صورتوں اور احوال کے کشف پر مخصوص ہے جو خلوقات سے تعلق رکھتے ہیں، چونکہ اکثر لوگ جو حق تعالیٰ کی بارگاہ سے جدا ہوتے ہیں اور دنیا کے ساتھ اشتعال رکھتے ہیں اور جن کے دل صورتوں کے کشف اور مخلوقات کی غائبانہ خبروں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ امر بڑا بھاری معلوم ہوتا ہے اور گمان کرتے ہیں کہ یہی لوگ اہل اللہ اور حق تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اور اہل حقیقت کے کشف سے انکار کرتے ہیں اور اہل حقیقت کو ان احوال میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کرتے ہیں۔ تہمت لگاتے اور کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اہل حق ہوتے جیسے کہ لوگوں کا گمان ہے تو یہ لوگ بھی ہمارے اور تمام مخلوق کے غیبی احوال بتلاتے ۔
جب ان کو کشف احوال پر قدرت نہیں ہے تو ان امور کے کشف پر جو مخلوقات کے احوال سے اعلیٰ ہیں کس طرح قدرت رکھیں گے اور اہل معرفت کی فراست کو جو حق تعالیٰ کی ذات و یا صفات و افعال سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے اس قیاس فاسد سے جھوٹا جانتے ہیں اور ان بزرگوں کے علوم و معارف صحیحہ سے محروم رہ جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ حق تعالیٰ نے ان لوگوں کو خلق کے ملاحظہ سے محفوظ رکھا ہے اور ان کو اپنی جناب پاک کے ساتھ ہی مخصوص کر لیا ہے اور ان کی حمایت وغیرت کے باعث ان کو مخلوقات کی طرف سے ہٹا رکھا ہے۔ اگر یہ لوگ خلق کے احوال کے در پے
ہوتے تو بارگاہ الہی کے حضور کی صلاحیت ان میں نہ رہتی۔ انتھی کلام ۔
اس قسم کی اور بھی بہت سی باتیں فرمائی ہیں اور میں نے اپنے خواجہ قدس سرہ سے سنا ہے کہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ بعض اولیا جن سے خوارق و کرامات ظاہر ہوئے ہیں۔ آخر دم میں ان کرامات کے ظہور سے نادم ہوئے ہیں اور یہ خواہش کرتے رہے ہیں کہ کاش ہم نے یہ خوارق و کرامات ظاہر نہ ہوتے۔ اگر فضیلت خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کے باعث ہوتی تو اس طرح ندامت کیوں کرتے ۔
سوال :۔ جب خوارق کا ظاہر ہونا ولایت میں شرط نہیں تو پھر ولی غیر ولی سے کس طرح متمیز ہو سکتا ہے اور سچا جھوٹے سے کس طرح جدا ہو سکتا ہے۔
. جواب : گوتمیز نہ ہو اور جھوٹا کچے کے ساتھ ملار ہے، کیونکہ حق کا باطل کے ساتھ ملا ر بنا اس جہان کے لوازم میں ہے۔ ولی کو اپنی ولایت کا علم ہونا ضروری نہیں ۔ بہت سے اولیاء اللہ ایسے ہیں کہ اپنی ولایت کا علم نہیں رکھتے۔ تو پھر دوسروں کو ان کی ولایت کا علم کس طرح ہوگا۔ ہاں نبی ہے کے لیے خوارق کا ہونا ضروری ہے۔ تا کہ نبی اور غیر نبی میں تمیز ہو سکے۔ کیونکہ نبی کے لیے اپنی نبوت کا علم ہونا ضروری ہے اور ولی چونکہ اپنے نبی کی شریعت کے موافق دعوت کرتا ہے اس لیے نبی کا معجزہ اس کے لیے کافی ہے اور اگر ولی اپنے پیغمبر کی شریعت کے سوا دعوت کرتا تو اس کے لیے خوارق کا ہونا ضروری تھا لیکن جب اس کی دعوت اپنے نبی کی شریعت پر مخصوص ہے تو پھر اس کے لیے خوارق کی حاجت نہیں۔ علماء صرف ظاہر شریعت کے موافق دعوت کرتے ہیں اور اولیاء شریعت کے ظاہر اور باطن کے موافق دعوت کرتے ہیں اور اول مریدوں اور طالبوں کی تو بہ اور انابت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور احکام شرعیہ کے بجالانے کی ترغیب دیتے ہیں پھر ذکر الہی بتلاتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ تمام اوقات ذکر میں مشغول رہیں تا کہ ذکر غالب آ جائے اور مذکور کے سوا دل میں کچھ نہ رہے اور مذکور کے ماسوا کا نسیان یہاں تک ہو جائے کہ اگر تکلف کے ساتھ بھی اس کو یاد دلائیں تو اس کو یاد نہ آئے ۔
ظاہر ہے کہ ولی کو اس دعوت کے لیے جو شریعت کے ظاہر و باطن سے تعلق رکھتی ہے خوارق کی کیا ضرورت ہے۔ پیری ومریدی اس دعوت سے مراد ہے جس کا خوارق و کرامت سے تعلق و واسطہ نہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ مرید رشید اور طالب مستعد ہر گھڑی سلوک طریق میں اپنے پیر سے خوارق و کرامات محسوس کرتا ہے اور معاملہ غیبی میں مہر دم اس سے مدد لیتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی نسبت خوارق کا ظاہر ہونا ضروری نہیں لیکن مریدوں کی نسبت کرامات ہی کرامات اور خوارق ہی خوارق ہیں۔
مرید کس طرح پیر کے خوارق کو محسوس نہ کرے۔ جبکہ پیر نے مردہ دل کو زندہ کر دیا ہے اور مشاہدہ و مکاشفہ تک پہنچا دیا ہے۔ عوام کے نزدیک بدنوں کا زندہ کرنا عظیم الشان ہے اور خواص کے نزدیک قلب و روح کا زندہ کرنا اعلیٰ درجہ کی برہان ہے۔ خواجہ محمد پارسا قدس سرہ رسالہ قدسیہ میں فرماتے ہیں کہ جسد کا زندہ کرنا چونکہ اکثر لوگوں کے نزدیک بڑا اعتبار رکھتا تھا اس لیے اہل اللہ اس طرف سے منہ پھیر کر روح و قلب کے زندہ کرنے میں مشغول ہوئے ہیں۔ واقعی جسدی زندگی قلبی و روحانی زندگی کے مقابلہ میں راستہ میں پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہے اور اس کی طرف نظر کرنا عبث و بے فائدہ ہے، کیونکہ جسدی زندگی چند روزہ زندگی کا باعث ہے اور روحانی وقلبی زندگی دائگی حیات کا موجب ہے۔
بلکہ ہم کہتے ہیں کہ در حقیقت اہل اللہ کا وجود کرامت ہے اور خلق کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے اور مردہ دلوں کا زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے آیت عظمی ہے۔ یہی لوگ اہل زمین کا امن اور غنیمت روزگار ہیں۔ بِهِمْ يُرْزَقُونَ وَبِهِمُ يُمْطَرُونَ (انہی کے طفیل لوگوں پر بارش اترتی ہے اور انہی کے طفیل ان کو رزق ملتا ہے ) انہیں کی شان میں وارد ہے ان کی کلام دوام ہے اور ان کی نظر شفا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہم نشین ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین بد بخت نہیں ہوتا اور ان کا دوست رحمت حق سے نا امید نہیں ہوتا۔ وہ علامت جس سے اس گروہ کا جھوٹا اور سچا جدا ہو سکے یہ ہے کہ جو شخص شریعت پر استقامت رکھتا ہو اور اس کی مجلس میں دل کو حق تعالیٰ کی طرف رغبت و توجہ پیدا ہو جائے اور ماسوا کی طرف سے دل سرد ہو جائے ۔ وہ شخص سچا ہے اور درجات کے اختلاف کے بموجب اولیاء کے شمار میں ہے۔ مگر یہ بھی ان لوگوں کے لیے ہے جو اس گروہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور جن کو اس گروہ کے ساتھ مناسبت نہیں۔ وہ محروم مطلق ہیں۔
ہر کرار وئے یہ بہبود نداشت
دیدن روئے نبی سود نداشت
ترجمہ نہ تھی جس کی قسمت میں کچھ بہتری
تھا بے سود اس کو لقائے نبی صلى الله عليه وسلم
مکتوب شریف میں سلطان وقت کی خدا پرستی اور احکام شریعت کے موافق عدل وانتظام کا حال لکھا ہوا تھا۔ اس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی اور کمال ذوق پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بادشاہ وقت کو عدل و عدالت کے نور سے منور کیا ہوا ہے اسی طرح ملت محمدیہ کو بھی بادشاہ کے حسن انتظام سے نصرت و عزت بخشے ۔
اے شریعت کے نشان والے ۔ الشَّرِيعَةُ تَحْتَ السَّيْفِ (شریعت تلوار کے نیچے ہے) کے موافق شریعت غرا کی ترقی و رواج شاہان بزرگ کے حسن انتظام پر موقوف ہے ۔ جب سے یہ امرضعیف ہو گیا ہے اسی دن سے اسلام بھی ضعیف ہو گیا ہے۔ کفار ہند بے تحاشا مسجدوں کو گرا کر وہاں اپنے معبد و مندر تعمیر کر رہے ہیں۔ چنانچہ تھانیسر میں حوض کر کھیت کے درمیان ایک مسجد اور ایک بزرگ کا مقبرہ تھا۔ اس کو گرا کر اس کی جگہ بڑا بھاری مندر بنایا ہے۔ نیز کفار اپنی رسموں کو کھلم کھلا بجالا رہے ہیں اور مسلمان اکثر اسلامی احکام کے جاری کرنے میں عاجز ہیں۔ ایکا دشی کے دن ہند و کھانا ترک کر دیتے ہیں۔ بڑی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی شہروں میں کوئی مسلمان اس دن نہ روٹی پکائے اور نہ بیچے اور ماہ مبارک رمضان میں برملا نان طعام پکاتے اور بیچتے ہیں مگر اسلام کے مغلوب ہونے کے باعث کوئی روک نہیں سکتا۔ ہائے افسوس ۔ بادشاہ وقت ہم میں سے ہو اور پھر ہم فقیروں کا اس طرح خستہ اور خراب حال ہو ۔
بادشاہوں کے اعزاز و اکرام ہی سے اسلام کی رونق تھی اور انہیں کی بدولت علماء و صوفیا، معزز محترم تھے اور انہی کی تقویت سے شریعت کے احکام کو جاری کرتے تھے ۔ میں نے سنا ہے کہ ایک دن صاحب قرآن امیر تیمور علیہ الرحمتہ بخارا کی گلی سے گزر رہا تھا۔ اتنا قا اس وقت حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی خانقاہ کے درویش خانقاہ کی دریوں اور بستر وں کو جھاڑو دے رہے تھے اور گرد سے پاک کر رہے تھے ۔ امیر مذکور مسلمانی کے حسن خلق سے جو اس کو حاصل تھا ، اس کو چہ میں ٹھہر گیا۔ تا کہ خانقاہ کی کرد کو اپنا صندل دبیر بنا کر درویشوں کی برکات فیوض سے مشرف ہو ۔ شاید اس تواضع اور فروتنی کے باعث جو اس کو اہل اللہ کے ساتھ حاصل تھی ۔ حسن خاتمہ سے مشرف ہوا۔
منقول ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ امیر کے مرجانے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ
تیمور مر گیا اور ایمان لے گیا۔
آپ کو معلوم ہے کہ جمعہ کے دن خطبہ میں بادشاہوں کے نام جو ایک درجہ نیچے لا کر پڑھتے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی تواضع ہے جو شاہان بزرگ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی نسبت ظاہر کی ہے اور جائز نہیں رکھتے کہ ان کے نام دین کے بزرگواروں کے نام کے ساتھ ایک درجہ میں مذکور ہوں۔
تذبيل
اے بردار ! سجدہ جو پیشانی کو زمین پر رکھنے سے مراد ہے۔ اس میں نہایت ذلت وانکسار اور کمال تواضع و عاجزی ہے۔ اسی واسطے اس قسم کی تواضع حق تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ منقول ہے کہ ایک دن پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کسی راستہ میں جارہے تھے کہ ایک اعرابی نے آکر معجزہ طلب کیا تا کہ ایمان لائے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس درخت کو جا کر کہ ۔ تجھ کو پیغمبر بلاتا ہے درخت یہ سن کر اپنی جگہ سے ہلا اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اعرابی یہ حال دیکھ کر اسلام لے آیا۔ پھر عرض کی یا رسول اللہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کو سجدہ کروں۔ فرمایا خدا کے سوا کسی ک سجدہ جائز نہیں ہے۔ اگر حق تعالی کے سواکسی غیر کو جدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ مردوں کو سجدہ کریں۔
بعض فقہا نے اگر چہ بادشاہوں کے لیے سجدہ تحیت یعنی سجدہ تعظیم جائز رکھا ہے، لیکن بادشاہوں کے لیے بھی مناسب ہے کہ اس امر میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں تواضع کریں اور اس قسم کی ذلت و انکسار حق تعالیٰ کے سوا کسی غیر کے لیے پسند نہ کریں۔
حق تعالیٰ نے تمام جہان کو ان کے تابع اور ان کا محتاج بنایا ہے۔ اس نعمت کا شکر بجالا کر اس قسم کی تواضع کو جس سے کمال عجز وانکسار ظاہر ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے ساتھ ہی مسلم رکھیں اور اس امر میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ بنائیں۔ اگر چہ بعض نے اس امر کو جائز رکھا ہے۔
مگر مناسب ہے کہ ان کا حسن تواضع اس امر کو پسند نہ کرے۔ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (احسان کا بدلہ احسان ہی ہے ) جب بادشاہ وقت اپنے ممالک کی سیر سے دارالخلافہ میں واپس آئے گا تو امید ہے کہ یہ فقیر بھی حق تعالیٰ کے ارادہ سے عنقریب دار الخلافہ میں حاضر ہوگا ۔
وَالْبَاقِي عِندَ التَّلافِی وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَىٰ عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلَوةُ وَالتَّسْلِيمَاتُ سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی اور حضرت محمد مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کو لازم پکڑا۔